سندھ رینجرز کے ایک بڑے جرائم پیشہ شخص صادق گڈانی کو اس کے چار ساتھیوں کے ساتھ ایک مقابلے میں ہلاک کیا اس دو طرفہ فائرنگ میں تھانہ نیپئنر کے ایس ای اوچ اعظم خان اور دوسرے دو سپاہی اور ایک راہ گیر خاتون بھی زخمی ہوگئی ۔ رینجرز کے ایک دستے اس مقام پر چھاپہ مارا جہاں پر صادق گڈانی اور اس کے ساتھی چھپے بیٹھے تھے پہلے فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے صادق گڈانی اور اس کے چار دیگر ساتھی ہلاک ہوگئے ان کا تعلق بابالا ڈلہ گروپ سے تھا گینگ وار میں مخلاف گروپ نہ صرف ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے بلکہ سرکاری اہلاکروں کی سرپرستی بھی انہوں نے پورے لیاری اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا حیرانگی کی بات ہے کہ اتنی بڑی رینجرز کی فوجی قوت جس کو پولیس اور سیکورٹی اداروں کی بھرپور امداد حاصل تھی یہ چند بد معاشیوں اور جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ نہ کر سکے پھر سر عام یہ لوگوں سے بندوق کے نوک پر بھتہ وصول کرتے تھے اور بھتہ نہ دینے کی صورت میں لوگوں کو آئے دن گولیاں مار کرقتل کرتے تھے اور رینجرز اور پولیس ان قاتلوں کا پیچھا تک نہیں کرتی تھی یہ اپنی مرضی سے وارداتیں کرتے تھے ۔ ظاہر ہے یہ بندوق کے ہر وار پر بھتہ وصول کرنے کے بعد اپنے بڑے جرائم پیشہ جو ان کا بڑا ہے پیسہ دیتے تھے وہ کون ہے ۔ وہ کیوں گرفتار نہیں ہوا ۔ اس کا پیچھا کیوں نہیں کیا گیا بابالاڈلہ دو سال قبل ایران میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا ۔ رینجرز کے معلومات میں یہ بات شامل ہے کہ ہر وہ جرائم پیشہ شخص کے نام پر بھتہ وصول کیا جارہا ہے ۔ اور اس کے نام سے گینگ چل رہا ہے صادق گڈانی اسی گینگ کا کارندہ تھا وہ بھتہ کون وصول کررہا ہے اس کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا سرکاری اہلکاروں نے بابا لاڈلہ کی موت کی تصدیق میں کی اور یہ ان کے مفاد میں تھا کہ اس کو دوسروں کے مقابلے میں مزید زندہ رکھا جائے ایک سال بعد ٹیپ سامنے لایا گیا اور ٹی وی چینلز کو دبا گیا جس میں اس کی لاش کی تصویر تھی گینگ وارمیں چند لوگ ہیں جو پورے لیاری کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اب ان جرائم پیشہ افراد کی سرکاری سرپرستی بند ہونی چائیے اور ان کاخاتمہ کیاجائے ان کو ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی قوتوں کے خلاف ایک مہرے کے طورپر استعمال نہ کیاجائے ان کو صرف اور صرف جرائم پیشہ افراد تصور کیاجائے سیاسی مہرہ نہیں ۔ لیاری پورے پاکستان میں سیاست کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے ۔ سرکاری اہلکاروں نے جرائم پیشہ افراد کو استعمال کرکے لیاری کے سیاسی کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور لو گوں کو بندوق کے نوک پر یرغمال بنایا سرکاری اہلکار اس حد تک کامیاب ہوئے کہ انہوں نے عزیر بلوچ جیسے شخص کو پی پی پی پر مسلط کردیا اور اب اس کو استعمال کرکے پی پی پی کے تباہی کا سامان جمع کررہے ہیں لیکن لیاری کے سیاسی کلچر کا خاتمہ نا ممکن ہے ۔ لوگوں کے سیاسی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی اور نہ سرکاری اہلکار اس کے اہل ہیں کہ وہ سیاسی تبدیلی لائیں البتہ ان کویہ ماہرت حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کو استعمال کر سکتے اور اپنی کم مدت کے مفادات کا تحفظ مخصوص مدت تک کر سکتے ہیں یہ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے لیاری میں ایک پر امن ماحول بحال کیاجائے گینگ وار کا خاتمہ کیاجائے پہلے اس کی سرپرستی ختم کی جائے بعد میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔
جرائم پیشہ افراد کی ہلاکت
وقتِ اشاعت : August 25 – 2015