|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2015

بھارت نے ایک بار پھر دو طرفہ مذاکرات عین موقع پر منسوخ کردئیے ۔ یہ دو طرفہ مذاکرات دونوں ملکوں کے درمیان طے تھے بلکہ دونوں ملکوں کے دفاتر خارجہ نے اس کی تاریخ اور مقام بھی اتفاق رائے طے کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ ہر مسئلے پر بات چیت کرنے کو تیار ہے خصوصاً متنازعہ علاقہ کشمیر پر ایک معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت اس بات کے پابند ہیں کہ وہ دو طرفہ باہمی مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر حل کریں اور اس کو بین الاقوامی فورم میں نہ لے جائیں ۔ مگر اس بار بھارت نے اس سے بھی انکار کردیا ہے ۔ گویا اب وہ کشمیر کے مسئلے کو دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ نہیں سمجھتا۔ وہ ذکی الدین لکھوی کی عدالت سے رہائی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کے بھارت میں ہائی کمشنر نے کشمیری حریت پسند رہنماؤں کو جناب سرتاج عزیز کے ساتھ ہائی کمیشن میں مدعو کیا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کشمیر کے مسئلے اور بھارت سے مذاکرات سے قبل حریت پسند رہنماؤں سے صلاح و مشورہ کیا جائے پاکستان کی حکومت اور عوام یہ سمجھتی ہے کہ کشمیری رہنماؤں سے صلاح مشورہ ضروری ہے جب کبھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا مرحلہ آیا چنانچہ ہمیشہ کی طرح پاکستانی سفارت کار نے حریت رہنماؤں کو مدعو کیا تاکہ بھارت سے مذاکرات سے قبل ان سے مشاورت کی جائے ۔ بھارت نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گزشتہ موقع پر بھی مذاکرات منسوخ کردئیے اور اس بار تمام اہم کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیایا ان کو اپنے گھروں میں نظر بند کردیا ۔ دوسری جانب بھارتی حکومت زبردست ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو طرفہ مذاکرات منسوخ کردئیے اور یہ کہاکہ بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ پاکستان پر اجلاس کا ایجنڈا مسلط کرے اور پاکستان پابند ہوگا کہ وہ دوسرے مسائل مذاکرات میں نہ اٹھائے بھارت ‘ امریکا کی پشت پناہی پر ممبئی حملوں کو ایجنڈے میں اولیت دینا چاہتا تھا اور ذکی الدین لکھوی کے معاملے کو اولیت دینا چاہتا تھا جس سے پاکستان نے انکار کیا اور بالآخر دو طرفہ مذاکرات ایک بار پھر مسنوخ ہوگئے ۔ جس کا بھارت نے باضابطہ اعلان بھی کردیا بھارت اس طرح کی حرکات سے پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی لائے ۔ بات چیت میں تعطل کی وجہ یہ بھی یہی ہے کہ بھارت دنیا کی توجہ کشمیر کے مسئلے سے ہٹانا چاہتا ہے اور یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ کشمیر مسئلے کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ وہ کشمیری حریت پسند رہنماؤں سے بھی ناراض ہے اور چاہتا ہے کہ کشمیری رہنما صرف بھارت سے بات چیت کریں ۔ پاکستان سے نہ کریں ۔ کشمیری رہنماؤں نے بھارت کے اس طرز عمل پر زبردست مفاہمت کا مظاہرہ کیا اور اس بات کو ترجیح دی کہ ان کو گرفتار کیا جائے یا ان کو گھروں میں نظر بند کیاجائے ان کی رائے اور سوچ میں تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ وہ گزشتہ 68سالوں سے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں اور کشمیری عوام ان کے ساتھ ہیں بھارت یا بھارتی حکومت کے ساتھ نہیں ۔ موجودہ حالات میں بھارت خطے میں موجود کشیدگی سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور دن بدن پاکستان پر اپنا سیاسی اور سفارتی دباؤ بڑھا رہا ہے بلکہ آج کل بھارت فوجی قوت کا بے دریغ استعمال کرکے خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کررہا ہے آئے دن کی گولہ باری ‘ سرحدی خلاف ورزیاں بھارتی پالیسی کا حصہ ہیں ۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت موجودہ صورت حال کا بھارت بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اس نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیاہے وہ پاکستان کی مشکلات سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے بھارت پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں ایک ماتحت ریاست بنانا چاہتا ہے ۔