|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2015

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حکومت بلوچستان نے ابھی تک غیر قانونی تارکین وطن کی افغانستان واپسی سے متعلق اقدامات نہیں اٹھائے ۔ زبانی جمع خرچ کے طورپر حکومتی اور پارٹی کے رہنماء صرف اخبارات میں بیانات کی حد تک محدود ہیں اور عملی اقدامات کرنے سے گریزاں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ دہشت گردوں کے تمام واقعات خواہ ملک کے کسی بھی علاقے میں ہوں ، ان میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن ملوث پائے گئے ہیں ۔ اس کی تصدیق مرکزی وزیر داخلہ اور ملک کے ذمہ دار افسران اور رہنماؤں نے کی ہے بلکہ قومی رہنماء اور سرکاری افسران یہ تک کہہ چکے ہیں کہ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن ملک میں تخریب کاری اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے علاوہ پاکستان اور اس کی ریاست کے لئے ایک زبردست سیکورٹی رسک ہیں ۔ اس سیکورٹی رسک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے کیا معنی ہیں کیا یہ سمجھا جائے حکومت میں شامل افراد ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی جلد از جلد شروع کی جائے تاکہ وہ پاکستان اور پاکستانی ریاست کو مزید نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا شیڈول طے ہے ان کو دسمبر کے بعد پاکستان میں رہنے کی اجازت نہیں ہے ۔ کے پی کے اور پنجاب حکومتوں نے ان کے خلاف دباؤ بڑھا دیا جس کے نتیجے میں تقریباً پچاس ہزار کے لگ بھگ افغان مہاجرین رضا کارانہ طورپر واپس جا چکے ہیں افسوس کہ بلوچستان سے ایک بھی مہاجر واپس نہیں گیا یا غیر قانونی تارکین وطن میں سے گرفتار ہوا نہ ہی اتنی مدت گزرنے کے بعد حکومت بلوچستان اور وفاقی اداروں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے ۔ جنرل حمید گل نے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی یہ کی ہے کہ افغان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلا دیا بلوچستان میں ان کو مقامی آبادی کا حصہ بنانے کی کوشش کی ۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ’’ سابقہ اثاثے‘‘ دوبارہ کیمپوں میں جمع کرے اور بعد میں ان کو رضا کارانہ یا غیر رضا کارانہ طورپر افغانستان واپس بھیجا جائے ،سب سے پہلے ان کو شہروں اور بڑی بڑی آبادیوں سے باہر نکالا جائے تاکہ ان کی دہشت گردی کی استعداد صفر یا زیرو ہوجائے ان کو کیمپوں میں مقید کیا جائے اور بعد میں ان کو پاکستان بدر کردیا جائے خواہ وہ غیر رضا کارانہ بنیاد پر نہ ہو ۔ بہر حال پاکستان کی سرزمین پر افغان مہاجرین اور غیرقانونی تارکین وطن کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ان کو ہر حال میں اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔ دسمبر آنے سے قبل حکومت اور حکومتی اداروں کو چاہئے کہ ان کی بلا تاخیر گرفتاری کا عمل شروع کیاجائے ان کے تمام اثاثہ جات ضبط کیے جائیں اور ان کو عدالتوں کے ذریعے غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہونے اور رہنے پر سخت سزائیں دی جائیں اور بعد میں ان کو پاکستان بدر کیاجائے ۔ادھر اقوام متحدہ کا ادارہ اس بات کی توقع نہ رکھے کہ ہمیشہ کی طرح دباؤ ڈال کر افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کی مدت میں مزیدتوسیع کروائے گا۔ اس دسمبر کے بعد ہر ایک افغان کو اپنے وطن جانا ہے ۔ صرف وہ افغان پاکستان میں رہنے کے مجاز ہوں گے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا ویزا ہوگا۔ جن حضرات نے فراڈ کرکے جعلی شناختی کارڈ بنائے ہیں ان کو نہ صرف گرفتار کیاجائے بلکہ انکو سزا بھی دی جائے ایسے افراد جنہوں نے فراڈ کے ذریعے پاکستانی شہریت کی دستاویزات بنائی ہیں اور سرکاری ملازمت حاصل کی ہے ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کیاجائے ،ان کو سرکاری ملازمت سے برخاست کیاجائے اور جائز عدالتوں سے ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ موجودہ سیکورٹی کی صورت حال اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان کے مفادات اور پاکستانی شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے ۔