بہت عرصے بعد حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے ۔ اب حکومت اور سیکورٹی ادارے اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ فرقہ پرست جماعتیں اور ان کے مسلح حامی ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ ہیں طالبان بھی تو فرقہ پرست اور قدامت پسندہی ہیں جو دوسروں کے نظریات کا احترام نہیں کرتے بلکہ انہوں نے بڑی تعداد میں غیر مسلموں اور ان کے عبادت خانوں کو نشانہ بنایا تھا ان میں پشاور اور اسلام آباد کے گرجا گھر ابھی تک ان کے حملوں کی سفاکیت کا مظہر ہیں ۔ ویسے شیعہ فرقے کے لوگوں کو بھی طالبان نے پہلے نشانہ بنایا اور مسجدوں میں نمازیوں کو شہید کیا ۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جنرل ضیاء الحق کی پوری سیاست فرقہ پرستی پر مبنی تھی اور ان تمام دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی اور بڑے پیمانے پر مدد انہوں نے اور ان کے رفقاء نے کی، ان کو اسلحہ فراہم کیا، تربیت دی تاکہ وہ لادین روسیوں سے امریکا کی ایماء پر لڑتے رہیں اور ملک کے اندر ان تمام قوتوں کا صفایا کریں جو اس کی پالیسی کے مخالف تھے ۔ بڑے پیمانے پر شیعوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے۔ اس سرکاری سرپرستی کے بعد ریاست پاکستان نے کبھی بھی ان فرقہ وارانہ تنظیموں ،فرقہ پرست جماعتوں اور دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کارروائی اس وقت شروع ہوئی جب طالبان نے ریاست پاکستان اور سیکورٹی افواج پر دہشت گردانہ حملے شروع کیے ۔ سیکورٹی افواج اور پولیس کی کارروائی طالبان تک محدود رہی ۔ پنجابی طالبان کے خلاف آج دن تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی حالانکہ لشکر جھنگوی القاعدہ کا باقاعدہ ایک حصہ بن گیا تھا جس نے پاکستان کی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کررکھا تھا ۔ لشکر جھنگوی نے بلوچستان خصوصاً کوئٹہ شہر کے گردو نواح میں شیعوں خصوصاً ہزارہ برادری پر خونی حملے کیے، خودکش بمبار استعمال کیے اور ہزاروں بے گناہوں کو ہلاک کیا، لشکر جھنگوی کے خلاف اتنے سالوں میں کوئی رسمی کارروائی بھی نہیں ہوئی سوائے ایک دو پولیس مقابلے میں جن میں انکے کمانڈر ہلاک ہوئے ۔ اس کے علاوہ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی نہ ہی ان کے خلاف عدالتی عمل کو استعمال کیا گیا،ان کے کچھ حمایتیوں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصے بعد ان کو رہا کیا گیا ۔کرنل شجاع پر خودکش حملے کے بعد حکومت کو ہو ش آگیا ہے کہ فرقہ پرست دہشت گرد کتنے خطر ناک ہیں جس کے خلاف پنجاب میں گزشتہ تیس سالوں میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ملک اسحاق پنجاب بھر میں دہشت گردوں کے بے تاج بادشاہ بنے رہے اور ریاستی اہلکار اس کے خلاف گواہی دینے سے گریز کرتے تھے ۔
ان اعلیٰ ترین افسران میں پنجاب کے پولیس سربراہ اور ہوم سیکرٹری شامل تھے ۔ معلوم نہیں ہوا کہ پولیس نے ملک اسحاق اور اس کے دو بیٹوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گمان یہ ہے کہ یہ حکم نامہ کرنل شجاع وزیر داخلہ پنجاب نے ذاتی طورپر دیا تھا ۔ اس لئے لشکر جھنگوی نے اس چھت کو زمین بوس کردیا جس کے نیچے کرنل شجاع خان زادہ بیٹھے تھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی پنجاب اور مرکزی پنجاب میں موجود تمام دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، ان کے کمانڈاور کنٹرول نظام کو تباہ کیاجائے ،مدارس جن کو یہ فرقہ وارانہ دہشت گرد بھرتی دفتر کے طورپر استعمال کرتے ہیں ان کو پنجاب حکومت تحویل میں لے ۔ ان کے فنڈ اکٹھا کرنے کی صلاحیت ختم کی جائے ،ان تمام تنظیموں کا مرکز جنوبی پنجاب ہے۔ وہی طالبان اور القاعدہ کی پناہ گاہ ہے ان کا صفایا کرنے کے بعد ملک میں 99فیصد امن قائم ہو جائے گا دہشت گردی ختم ہوجائے گی جب پنجاب حکومت یہ فیصلہ کرے ۔خوف کے تحت ملک اسحاق کے خلاف ایک فیصلہ ہوا تھا اور ابھی تک پنجاب کے حکمرانوں پر لرز ا طاری ہے ۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی
وقتِ اشاعت : August 28 – 2015