|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2015

صرف وہ حضرات جو سیاسی سوچ نہیں رکھتے ہوں وہی لوگ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں سیاست اور جمہوریت کا بنیادی اصول مذاکرات اور دوسرے کے رائے کا احترام ہے ۔ ضروری نہیں کہ دوسرے کی رائے سے ضرور اتفاق کریں اور مذاکرات میں سیاسی اور دوسرے مسائل کا حل تلاش کریں ۔ اس بار براہمداغ بگٹی نے کھلے الفاظ میں ریاست پاکستان سے مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ اس سے قبل ان کے دادا نواب اکبر بگٹی بھی مذاکرات کر لئے ہمیشہ تیار تھے۔ یہاں تک کہ پرویزمشرف سے اسلام آباد ملاقات کرنے جانے کے لئے وہ سوئی ائیر پورٹ پہنچ گئے تھے اور گھنٹوں ائر پورٹ پر جہاز کا انتظار کیا مگر جہاز کو سوئی نہیں آنے دیا گیا ۔ مقصد نواب بگٹی سے مذاکرات سے انکار تھا ۔ اس کا خمیازہ پورا ملک اور پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے ۔ بلوچستان میں ہر طرف جنگ وجدل اور خون خرابہ ہے واقعات گواہ ہیں کہ حکومت نے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔سابق صدر آصف علی زرداری نے واضح طورپر بتا دیا تھا کہ ریاستی ادارے بلوچوں سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں ۔ بلوچستان ریاستی اداروں کے حوالے رہا اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے آخری دن تک دوبارہ بلوچستان کی طرف رخ نہیں کیا ۔ پہلی مرتبہ آئے انہوں نے صدر کی حیثیت سے ایک پیکج کا اعلان کیا جو چالیس ارب روپے سے زیادہ کا تھا ۔ اس اعلان کے بعد صدر پاکستان نے نہ بلوچستان کا رخ کیا نہ اس کے متعلق کسی قسم کا علان کیا، دوسرے الفاظ میں اس بات کی تصدیق کی کہ بلوچستان پر سیاسی حکمرانوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ایسی صورت حال میں براہمداغ کی طرف سے اس بات کی رضا مندی کہ وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں اس سوجھ بوجھ کی نشاندہی کرتا ہے کہ براہمداغ کو نواب بگٹی نے با قاعدہ سیاسی معاملات میں تربیت دی تھی اسی وجہ ان کا سیاسی گراف دوسروں کی نسبت زیادہ ہے ۔ اسی لئے انہوں نے مذاکرات کے لئے بنیادی شرط یہ رکھی کہ مذاکرات کرنے کے لئے مناسب ماحول بنایا جائے جس میں فوجوں اور ایف سی کا انخلاء اور تمام فوجی اور تادیبی کارروائیوں کا خاتمہ شامل ہے ۔ جہاں تک بندوق لے کر پہاڑوں پر جانے کا تعلق ہے وہ ایک احتجاج ہے ، یہ بلوچستان میں روایاتی احتجاج ہے ۔ یہی احتجاج نواب بگٹی نے خود کیا تھا جب ان کے گھر مسلح حملہ ہونے والا تھا اسی رات کو وہ پہاڑوں پر چلے گئے پھر ان کے گھر پر حملہ ہواجس کی نواب بگٹی نے توقع کی تھی اب یہ بتائے کہ 85سالہ بوڑھا بلوچ کس طرح گوریلا جنگ لڑے گا نواب احتجاج کے طورپر گئے اور انہوں نے نوجوانوں کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔ بلوچوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے حقوق کا مطالبہ کرتا آرہا ہے ۔ ان میں ابتدائی طورپر پوری بلوچ لیڈر شپ شامل تھی ۔ ان میں میر غوث بخش بزنجو ‘ میر گل خان نصیر ‘ نواب بگٹی ‘ نواب مری ‘ سردار عطاء اللہ مینگل ‘ میر احمد نواز بگٹی اور بہت سے دوسرے لوگ شامل تھے ۔ طویل عرصے کے قید و بند اور ظلم و جبر سے مجبور ہو کر بعض لوگوں نے اس جدوجہد کو آزادی بلوچستان کی جدوجہد بنانے کی کوشش کی اس کی بنیادی وجہ سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب عوامی اور قوم پرست حکومت کی بر طرفی تھی اور اس کے بعد فوجی آپریشن تھا۔ ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے بلوچ عوام میں بد دلی پھیل گئی اس کے بعد حالیہ فوجی کارروائی نے کسر پوری کردی ۔ اب حکومت اور حکومتی اداروں نے اعتماد سازی کرنی ہے جس کا مطالبہ براہمداغ بگٹی نے کیا ہے ۔ یہ انتہائی مشکل کام معلو م ہوتا ہے کہ حکومت بلوچوں کا اعتماد دوبارہ حاصل کرے۔ موجودہ سیکورٹی کی صورت حال میں پاکستان دن بدن زیادہ سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتا جارہا ہے ۔ ایسی صورت حال میں بلوچ مسئلہ ثانوی حیثیت اختیار کرتے ہوئے نظر آرہا ہے ۔ شاید اس سے قبل حکومت کوئی بڑا فیصلہ کرے تاکہ وہ اپنی مکمل توجہ ملک کی سرحدوں پر دے تاہم زمینی حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اور نہ حکومت کا کوئی ایسا منصوبہ سامنے آیا ہے کہ وہ بلوچستان میں امن کس طرح بحال کرے گا۔