|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2015

کوئٹہ: پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹ کے مطابق براہمداغ بگٹی نے جولائی، 2015 میں سوئس انفو سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان ’اسامہ بن لادن کے بعد انہیں سب سے خطرناک شخص سمجھتا ہے‘۔وکی لیکس کے شائع کردہ امریکی سفارت خانے کے ایک مراسلے (26 فروری، 2010) کے مطابق، براہمداغ کا نام پاکستان کے ’مطلوب ترین افراد‘ کی فہرست میں شامل تھا۔نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے اور سوئٹرز لینڈ سے بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی)کی قیادت کرنے والے براہمداغ 2006 میں اپنے داد ا کے ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے کے بعد پاکستان سے فرار ہو گئے تھے۔پاکستان سے مذاکرات سے ہمیشہ انکاری خود ساختہ جلا وطن براہمداغ بلوچستان کی آزادی سے کم بات کرنے پر کبھی آمادہ نظر نہیں آئے۔تاہم، بدھ کو بی بی سی سے گفتگو میں ان کی آزاد بلوچستان کے مطالبے سے ہٹنے کی مشروط آمادگی نے سیاسی حلقوں میں قابل ذکر ہلچل مچا دی۔حکومت نے جہاں اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا ،وہیں ڈاکٹر اللہ نظر کی کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے اسے محتاط الفاظ میں مسترد کر دیا۔بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے محتاط الفاظ کے استعمال سے لگتا ہے شاید وہ طاقتور بگٹی قبیلے کے بیٹے کو ناراض کرنا نہیں چاہتی۔بگٹی کے یوٹرن میں متعدد داخلی اور بیرونی عوامل کار فرما ہیں۔صحافی شہزادہ ذوالفقار کا ماننا ہے کہ ان عوامل میں عالمی دباؤ بھی شامل ہے۔’پاکستان کچھ عرصے سے مغربی حکومتوں پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو پناہ نہ دے جو پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں‘۔بلوچستان میں سرگرم بڑے عسکریت پسند گروہوں میں شامل کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی(بی آراے) کو بی آر پی کا عسکری ونگ سمجھا جاتا ہے۔رواں سال 24 جنوری کو بی آر اے نے ضلع نصیر آباد میں بجلی کی دو ٹرانسمیشن لائنیں تباہ کر دی تھیں جس کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔خطے میں تبدیل ہوتے ماحول نے بھی پاکستان کی درخواست پر مغربی حکومتوں کے ردعمل میں اپنا کردار ادا کیا۔نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد منعقد ہونے والے گرینڈ جرگے کے رکن اور بلوچ سیاست دان یوسف مستی خان نے بتایا کہ ’خطے میں پراکسی جنگ کے دباؤ کم ہو رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا، ترکی ،ایران اور پاکستان کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں تک افغانستان کی بات ہے پاکستان طالبان کو مذاکرات کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔سفارت کاری کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں فوجی آپریشنز میں بھی تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کی محدود صلاحیت کو سخت چیلنجز درپیش ہیں۔پاک۔چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے صوبے میں امن ناگزیر سمجھا جا رہا ہے اور خبریں ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں عسکریت پسند گروہوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔جن علاقوں میں مبینہ عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا گیا ان میں ڈیرہ بگٹی بھی شامل ہے۔شہزادہ ذوالفقار نے بتایا ’علاقے میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی موجودگی کی وجہ سے بگٹیوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے‘۔’سوئی گیس فیلڈز ، لیویز، پولیس اور مختلف سرکاری محکموں میں کام کرنے والے براہمداغ بگٹی کے حامیوں کو ان کی حمایت کرنے پر اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے اور اس وجہ سے بھی براہمداغ پر دباؤ بڑھ رہا تھا‘۔پھرلوگوں نے میڈیا پر حکام کے سامنے عسکریت پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کی تقاریب بھی دیکھیں، حالانکہ ہتھیار ڈالنے کے یہ دعوے متنازعہ ہیں۔ایک صحافی نے کہا ’بلاشبہ بہت سے عسکریت پسندوں اور ان کے کمانڈروں نے سرنڈر کیا ہے، لیکن ان میں سے اکثر یا تو ایک سال پہلے ہی سرنڈر کر چکے تھے جب عام معافی نہیں تھی یا پھر ان کے گروہوں نے ان کو بے دخل کر دیا تھا۔بہرحال یہ پیشر فت میدان میں لڑنے والوں کیلئے حوصلہ شکن ثابت ہوئی ہے‘۔حالیہ کچھ عرصہ میں نسبتاً متحدہ محاذ بننے والی علیحدگی پسند تحریک کو وسائل اور حکمت عملی پر اختلافات کی صورت میں داخلی بحران نے بھی کمزور کیا۔یہ عین ممکن ہے کہ براہمداغ کے بی بی سی انٹرویو سے تحریک میں مزید دراڑیں پڑ جائیں، تاہم کچھ مبصرین براہمداغ کے انٹرویو کو دوسرے رخ سے بھی دیکھتے ہیں۔ستر کی دہائی میں عسکریت پسندی تحریک کے رکن محمد علی تالپور کے مطابق، بلوچ تحریک سے جڑے رہنے تک یہ لیڈر مذاحمت کی علامت سمجھے جاتے رہیں گے اور جس لمحہ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کا ارادہ کیا ، یہ محض انفرادی شخصیات بن جائیں گی۔تالپور نے بتایا کہ بہت لوگ براہمداغ کے بیان سے خو ش نہیں۔تاہم، اگر براہمداغ کی شرائط کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو انتہائی پر امید حلقے بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آگے سنگین چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں۔براہمداغ نے انٹرویو میں کہا کہ اگر بلوچ عوام نے چاہا تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے صوبے میں فوجی آپریشن بند کرنے اور سیکیورٹی فورسز واپس بلائے جانے کا مطالبہ بھی رکھا۔مستی خان کہتے ہیں کہ فوج آپریشن نہیں روکے گی کیونکہ ان کے خیال میں علیحدگی پسندوں کو شکست ہو چکی ہے اور اب انہیں سرنڈر کر دینا چاہیے۔ وہ چیزوں کو محض سیاہ یا سفید میں دیکھتے ہیں۔’حکومت کو چاہیئے کہ وہ 1948 میں خان آف قلات کے دستخط شدہ الحاق کی روشنی میں ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرے اور طے کرے کہ انہیںآزادی کے سوا کیا کیا دیا جا سکتا ہے۔ریاست اگر براہمداغ کی پیش کش کا فائدہ اٹھانے کیلئے سنجیدہ ہے تو اسے اپنے نقطہ نظر کا جائزہ لینا چاہیے۔سابق سینیٹر ثنا اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبے پر نوآبادیاتی سیکیورٹی ڈھانچے کی حکمرانی ہے،جس میں سے بلوچ تقریباً غائب ہیں۔’حتی کہ بلوچوں کے ایک معمولی احتجاج کو بھی فرنٹیئر کورآزادی کی مہم کے طور پر دکھاتی ہیاور اگلے دن علاقے میں فوج بھیج دی جاتی ہے‘۔’بلوچستان اور ریاست کے درمیان اعتماد کی اس کمی کو ترجیحی بنیادیوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ہم جانتے ہیں کہ صوبے میں فوج کے بڑے سٹریٹیجک مفادات ہیں لیکن ان کی وجہ سے بلوچوں کے مفاد نہیں روندھنے چاہیءں ‘۔