ڈاکٹر عاصم حالیہ صوبائی اور سابق وفاقی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا ۔ حکومت سندھ کی منتخب حکومت کو کسی نے پیشگی اطلاع نہیں دی نہ ہی وفاقی حکومت اور رہنماؤں کی طرف سے کوئی اشارہ ملا ۔کیایہ وفاقی سیاسی رہنماؤں کے حکم پر ہوا ۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ جائز طورپر ناراض ہیں ۔ وہ قانونی اور آئینی حکومت کے سربراہ ہیں اور سندھ کی پوری انتظامیہ ان کے ماتحت ہے اور ان کو کوئی خبر نہیں کہ ان کا وزیر گرفتار کر لیا گیا ۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کس کے حکم پر گرفتار ہو ا۔ اگر سندھ کے منتخب منتظم اعلیٰ لا علم ہیں تو یہ گرفتاری کیسے قانونی ہوگی ۔ ان کے گرفتاری کا طریقہ کار قابل اعتراض ہے ۔ وہ وزیر ہیں اور پاکستان کے آئین کے تحت وزیرہیں اور وہ ایک سرکاری اجلاس کی صدارت کررہے تھے کہ سرکاری اہلکار سادہ وردیوں میں کمرے میں گھس آئے اور ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر لیا ۔ ساتھ ہی موجود تمام افسران کوحکم دیا کہ وہ اپنا فون بند کردیں ۔ اس سے قبل رینجرز نے ایک پولیس اہلکار کی گرفتاری کے لئے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، بندوقیں تانیں اور تھانے میں موجود پولیس اہلکاروں کی بے عزتی کی اور ان کو ڈرایا دھمکایا ۔ حالانکہ مقامی افسر سے کہہ کر اس پولیس اہلکار کو قانونی طورپر گرفتاری کے لئے پیش کیا جا سکتا تھا اسی طرح سرکاری دفاتر میں دن دھاڑے چھاپے اور چھاپوں کے دوران ٹرک بھر کر سرکاری فائلیں حکومت سندھ کی اجازت کے بغیر لے جائے گئے ۔ مجاز افسر کے علاوہ کسی دوسرے کو ان فائلوں کو ہاتھ لگانے کی قانونی اور آئینی اجازت نہیں ہے اگر کسی تحقیقاتی ادارے کو تفصیلات کی ضرورت ہے تو صرف مجاز اتھارٹی وہ دستاویزات حوالہ کرسکتی ہے ۔ چھاپہ مار اہلکار نہ فائل اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں اور نہ ہی ڈیوٹی پر موجود افسر کو بغیر صوبائی حکومت کی اجازت کے گرفتار کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر عاصم کو ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کو نوے دن کیلئے رینجرز کی تحویل میں دے دیا گیا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا دوسرے الفاظ میں سندھ کا حال کا وزیر اور مرکز کا سابق وفاقی وزیر دہشت گردی کے الزامات کاسامنا کرے گا ۔ وفاقی حکومت کی مکمل خاموشی کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وفاق میں منتخب حکومت اس قسم کے فیصلوں کے حق میں نہیں ہے ۔ یہ آخر کار سندھ ہی میں کیوں ؟ ایسے کام کے پی کے اور پنجاب میں کیوں نہیں کیے جاتے ؟ کیا کسی سرکاری اہلکار کی یہ ہمت وہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف ‘ یا خٹک صاحب کے علم کے بغیر ان کے کسی وزیر کو گرفتار کر سکتے ہیں یا ایسا کوئی کام جس میں شہباز شریف کی حمایت حاصل نہ ہو کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ایک انتہائی خطر ناک بات ہے کہ سندھ کے عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ وہ اس ملک میں برابر کے شہری نہیں ہیں یا دوسرے درجے کے شہری ہیں اور ان کی حکومت کی تو کوئی حیثیت نہیں ۔ ان کے وزیر کو بغیر اطلاع دئیے گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے قبل سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے گئے بلکہ پولیس اسٹیشن تک کو نہیں چھوڑا گیا ۔ وفاقی وزراء اور وزیرعظم کی خاموشی سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت کو نہ یہ معلوم تھا اور نہ ہی اس کی حمایت حاصل تھی ۔پاکستانی ریاست کے مفاد میں ہے کہ یہ دوہرا معیار ختم کیاجائے اور تمام چھوٹے اور لاوارث صوبوں کو برابر تصور کیاجا ئے۔ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں ۔ وفاق کے تمام ادارے بھی صوبائی حکومت کی رہنمائی میں کام کریں ۔ وہ چھوٹے صوبوں میں آقا کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہ کریں ’ جو کچھ ہم نے پاکستان کے ابتدائی سالوں میں بنگالیوں کے ساتھ کیا اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ لوگ ناراض ہوگئے بغاوت کی اور الگ ہوگئے ۔
پی پی پر بڑا حملہ شروع ہوگیا
وقتِ اشاعت : August 31 – 2015