|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2015

کوئٹہ شہر میں بدھ کے روز دہشت گردی کا ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں دو دہشت گردوں نے سابق پولیس افسر قاضی واحد کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا ۔ قاضی واحد بلوچستان پولیس کے ایک معروف افسر تھے وہ ڈی آئی جی کی رینک تک پہنچے ۔ پھرپولیس سروس سے ریٹائرڈ ہوگئے۔  انہوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خدمت انجام دیں ۔ بدھ کے روز اپنے گھر سے نکلے تھے کہ دو دہشت گردوں نے ان کو گولیاں کا نشانہ بنایا، گولیاں چہرے اور سر پر لگیں جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر مبصرین اور تفتیش کاروں کو گمان ہے کہ فرقہ پرست دہشت گرد اس میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔ اس سے قبل ایک جھڑپ میں لشکر جھنگوی کے ’’علی شیر حیدری ‘‘ اور ان کے ساتھی پولیس کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوگئے تھے اس کے بعد مرحوم قاضی واحد فرقہ پرست دہشت گردوں کے ہٹ لسٹ پر تھے ، ان کو سروس کے دوران دھمکیاں بھی ملی تھیں، بعض اخباروں نے تجزیاتی رپورٹ شائع کی ان میں دھمکیوں کا تذکرہ تھا ملک اسحاق کا قتل غالباًفرقہ پرست دہشت گردوں کے خلاف پہلا واقعہ تھا اس سے قبل سندھ میں مسجد میں دہشت گرد حملے میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اس وقت تک کہ انہوں نے پنجاب کے وزیر داخلہ کو خودکش حملے میں ہلاک کردیا ۔ تاحال اطلاعات نہیں ہیں کہ حکومت نے فرقہ پرست دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے بلکہ اس کے فرنٹ آرگنائزیشن کھلے عام جلسے کررہے ہیں، جلوس نکال رہے ہیں اور سرعام اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں ابھی تک ان کو کوئٹہ شہر میں طاقت کا مظاہرہ کرنے سے نہیں روکا گیا مسلح افراد اپنے ممنوعہ بور کے اسلحہ کی سڑکوں پر نمائش کررہے ہیں ۔ یہاں تک ٹریفک جام کی صورت میں یا ٹریفک کی سست روانی کی صورت میں یہ مسلح اشخاص ڈرائیوروں پر بندوقیں تان لیتے ہیں کہ پہلے ان کے گزرنے کا حق ہے کیونکہ وہ بندوق بردار ہیں۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ان فرقہ پرست دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی اور اس حد تک کہ انہوں نے ہدف لگا کر سابق ڈی آئی جی قاضی واحد کو گھر کے باہر گولیوں سے بھون ڈالا ۔ وہ ایک پاکستانی شہری کے علاوہ ایک اعلیٰ پولیس افسر تھے اور ان کو دھمکیاں بھی ملیں تھیں اور فرقہ پرستوں نے اپنی دھمکیوں پر عمل کرکے دکھادیا کہ وہ اپنے دشمن کو نہیں چھوڑتے جبکہ حکومت اور حکومتی ادارے دیکھتے رہ گئے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور تفتیشی ادارے کس چابک دستی کے ساتھ ملزمان کو تلاش کرتے ہیں ان پر مقدمات چلا کر عبرتناک سزائیں دلائیں گے۔ کوئٹہ شہر میں گزشتہ ایک دہائی میں ایک ہزار سے زیادہ شہری فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار ہوگئے ۔ آج تک ان فرقہ پرست دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگایا گیا ۔ حکومت اس میں ناکام ہوگئی اور عوام کی نظروں میں اس کی ساکھ کو زبرست نقصان پہنچا ۔ قاضی واحد کے قتل کے بعد یہ سوالیہ نشان بن گیاہے کہ آیا حکومت قاتلوں کو گرفتار کرے گی؟ قاضی واحد نے کوئی جرم نہیں کیا نہ ہی ان کی کسی سے دشمنی تھی۔ انہوں نے صرف اپنی ڈیوٹی اور اپنا فرض ادا کیا کہ گولیوں کے مقابلے میں علی شیر حیدری ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے تھے ورنہ وہ کوشش کررہے تھے کہ ان کوزندہ گرفتار کریں۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور پولیس نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جس میں علی شیر حیدری اور دوسرے ہلاک ہوگئے ۔