|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے محلات قربتوں کو فاصلوں میں تبدیل کر دیتے ہیں وفاق کے طرز سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئی موجودہ حکمرانوں نے قوم پرستی اور اہل بلوچستان کو اپنے اقتدار پر قربان کر دیا ہے اہل اقتدار بلوچستان کوسونے کی چڑیا سمجھتے ہیں اور ہر کوئی اپنی استعدادکے مطابق اس کے ’’پر‘‘نوچ رہا ہے گوادرکاشغرمنصوبے پرمائنس بلوچ فارمولا کسی صورت قابل قبول نہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے کوئٹہ آمد کے بعد ’’آن لائن‘‘سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیااس موقع پربلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹرڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،آغاحسن بلوچ ودیگربھی موجود تھے سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ آج ہم پارٹی کی سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی کااجلاس طلب کررہے ہیں جس کامیری عدم موجودگی کی وجہ سے انعقاد نہیں ہوسکاپارٹی کے کونسل سیشن میں آئندہ کالائحہ عمل طے کرینگے جبکہ یہاں چند قبائلی تنازعات ہے جن کاتصفیہ کرانے کیلئے اپناکرداراداکرینگے جبکہ کوئٹہ موجودگی کے دوران سیاسی دوستوں سے ملاقاتیں بھی ہوں گی انہوں نے کہاکہ ہم مری معاہدے کاحصہ نہیں ہے تاہم مجموعی سیاسی حالات اورمری معاہدے کے بعد پیداہونیوالی صورتحال پرگہری نظرہے اس حوالے سے اپنے ان دوستوں کیساتھ بیٹھیں گے جنہوں نے سینٹ اوردیگرسیاسی امورمیں ہماراساتھ دیامری معاہدے کے حوالے سے کچھ بھی کہناقبل ازوقت ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ہلکان ہونیوالے خود اس بات کاجواب دیں کہ کیاانہوں نے بلوچستان کے مسائل کوحل کیاہے ہماری نظرمیں ان حکمرانوں کے مسائل کے حل کیلئے نہیں بلکہ مسائل کومزیدپچیدہ کرنے کیلئے لایاگیاہے وزیراعلیٰ کوہم نے پہلے بھی کہاتھاکہ وہ اس کرسی پربیٹھ جائے باقی اللہ ہی حافظ ہے موجودہ حکمرانوں نے قوم پرستی اوراہل بلوچستان کواپنے اقتدارکی خاطرقربان کردیاہے یہاں وسائل کوجس بے دردی سے لوٹاگیااس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ظلم وجبرکاسلسلہ تواترکے ساتھ جاری ہے مگرموجودہ حکمران اپنے اس امتحان میں ناصرف پاس ہوئے بلکہ خاموشی اختیارکرنے پرانہیں اضافی نمبربھی ملے ہیں انہوں نے کہاکہ وفاق کی طرز سیاست میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اسلام آباد کے محلات قربتوں کو فاصلوں میں تبدیل کردیتے ہیں یہاں جب کوئی حزب اختلاف میں ہوتاہے توہم سے عہد وپیماکئے جاتے ہیں مگر اقتدار میںآتے ہی وہ وعدے ٹوٹ جاتے ہیں مرکز کارویہ اورکرداریہاں کے لوگوں کی طرز زندگی اورحالات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ کس قدرمثبت ہے مرکز نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل میں اضافہ اوروسائل میں کمی لانے کی کوشش کی ہے حکمرانوں نے بلوچستان کوسونے کی چڑیاسمجھ رکھاہے جہاں جہاں ہرکوئی اپنی استعدادکے مطابق اس کے ’’پر‘‘نوچ رہاہے موجودہ حکمران بھی حزب سابق حکمرانوں کے نقش قدم پرچل رہے ہیں اس ملک کاوطیرہ رہاہے کہ یہاں اقتدارمیں رہنے والے وہ لوگ واپس اقتدارحاصل نہیں کرسکے جنہوں نے ان قوتوں کی ناراضگی مول لی جوانہیں ایوانوں تک لے آئے میاں محمدنوازشریف کی ریل ابھی تک پٹڑی پرچل رہی ہے اگران کے اتحادیوں کاساتھ چھوٹتارہاتویہ ریل کبھی بھی پٹڑی سے اترسکتی ہے انہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کے مسئلے کاحل چاہتے ہیں اوربلوچستان کے مسئلے کاحل اس وقت ہی ممکن ہے جب وسائل کااختیارات یہاں کے عوام کودیاجائے گوکہ اہل اقتدارواختیارکیلئے اب ہماری یہ باتیں الف لیلاکی کہانی بن چکی ہوگی مگرہم یہ چاہتے ہیں کہ اس جانب سنجیدگی سے دیکھاجائے اوربلوچستان کے عوام کویہ اختیارحاصل ہوکہ وہ فیصلہ کرے کہ انہیں کونسی ترقی قابل قبول ہے حزب روایات اسلام آبادکے فیصلے تھونپے گئے تویہ فیصلے قابل قبول نہیں ہونگے ہم کسی بھی طاقت سے لڑ تونہیں سکتے تاہم اپنی آوازضرور بلند کرینگے گوادرکاشغرروٹ اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگاجب تک اس کے ثمرات بلوچستان کے عوام کوحاصل نہ ہواگرپہلے منصوبوں کی طرح اس میں بھی مائنس بلوچ فارمولااستعمال کیاگیاتوبلوچستان نیشنل پارٹی اس کیخلاف بھرپورآوازبلند کرنے کاحق محفوظ رکھتی ہے۔