|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2015

بلوچستان کے سیاسی رہنماءاور سیاسی پارٹیاں وفاقی حکومت پر اپنا دبا بڑھا رہی ہیں کہ کم سے کم سندھک کاپر گولڈ پروجیکٹ اور گوادر پورٹ کا انتظام و انصرام صوبائی حکومت کے حوالے کیاجائے ۔ بلوچستان کی دو سب سے بڑی پارٹیاں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی جو قوم پرست پارٹیوںکے نام سے جانے جاتے ہیں ، نے یہی مطالبہ حال ہی میں کیا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اس بات کا کوئی قانونی اور آئینی جواز نہیں ہے کہ ان مذکورہ منصوبوں کو بلوچستان کے حوالے نہ کیاجائے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں لیاجانا چائیے کہ بلوچستان کے کنٹرول کے بعد چینی کمپنی کو سندھک سے بے دخل کیاجائے گا۔ بلکہ چینی کمپنی سے بین الاقوامی معاہدہ بر قرار رہے گا اس کا منافع اور تمام ٹیکس حکومت بلوچستان کو ملنے چاہئےں اگر ریکوڈک کے وفاقی ٹیکس صوبائی حکومت کے حوالے کیے جاتے تو شاید ریکوڈک کا بحران کھڑا نہ ہوتا۔ اب سندھک منصوبہ سے بلوچستان کو صرف دو فیصد رائلٹی مل رہی ہے ٹیکس اور منافع کی رقم جو اربوں میں ہے وہ وفاق لے جارہا ہے ۔ چینی کمپنی صرف اپنا منافع کما رہی ہے وہ بھی وفاقی ٹیکس ادا کرنے کے بعد ۔ رائلٹی کی رقم اتنی کم ہے کہ لوگ اس میں اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کرتے ۔ اصل رقم وفاقی ٹیکس اور منافع میں وفاقی حکومت کا حصہ ہے وہ سب کے سب بلوچستان کو ملنا چائیے بلکہ بلوچستان کے عوام اور سیاسی پارٹیاں اس کے حق میں ہیںکہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل ) اور اوجی ڈی سی ایل کو بھی بلوچستان حکومت کے حو الے کیاجائے ۔ ساری دولت اور معدنیات بلوچستان کی ہے اور ان دو اداروں میں بلوچستان کا چپڑاسی بھی نہیں ہے بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ وفاقی حکومت نے غیر قانونی طورپر پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل کے حصص فروخت کردئیے ہیں ۔ پہلے تو فروخت کرنا غیر قانونی ہے کیونکہ بلوچ عوام اس کے حق میں نہیں ہیں بلکہ اس کے سخت مخالف ہیں ۔ اس سے قبل بھی پی پی ایل فروخت کرنے کی کوشش کی گئی جس کی شدید مزاحمت کی گئی ۔ یہ ظلم نہیں ہے کہ ایک ادارہ ایک سال میں 190ارب روپے کما رہا ہے جووفاقی خزانے میں جارہا ہے ، نواز شریف اور اسحاق ڈار ذاتی مفادات کی خاطر ایسے ادارے فروخت کررہے ہیں جو کہ غیر قانونی ‘ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے کیونکہ اس کے مالک صرف بلوچ عوام ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ حالیہ ہفتوں میں جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں وہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں کےونکہ اس میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں ہے اب رہا سوال گوادر پورٹ کا ‘ بلوچستان کی دو سب سے بڑی پارٹیوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اس کا انتظامی کنٹرول صوبائی حکومت کو دیا جائے ا سکے بعد ہی اس کو چین کی راہداری کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔ گوادر پورٹ وسیع ساحل مکران کا ایک اہم ترین بندر گاہ ہے جو کھلے سمندر میں واقع ہے جہاں پر اس کی ترقی کے لا محدود امکانات ہیں ،ساحل مکران پر درجن بھر سے زائد بندر گاہیں موجود ہیں جن پر بین الاقوامی قوتوں کی نگاہیں ہیں اگر اس کو بلوچستان کے حوالے کیاجاتاہے تو اس کے تیز رفتار ترقی کے امکانات موجود ہوں گے کیونکہ بین الاقوامی تجارتی اور مالی اداروں کا اس خطے پر اعتماد بڑھ جائے گا اور اس کی بنیاد ی ڈھانچے کی تعمیر میں اربوں ڈالر رقم فراہم ہو سکتی ہے ۔ 1990ءکی دہائی میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے گوادر سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ساڑھے گیارہ ارب ڈالر مختص کیے تھے جو تاہنوز استعمال میں نہیں لائے گئے۔ اگر گوادر کی بندر گاہ کو بلوچستان کے کنٹرول میں دیا جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بنک وہ رقم دوبارہ مختص کرے گا بلکہ دوسرے بین الاقوامی ادارے اور دوست ممالک گوادر پورٹ کی ترقی میں حصہ لیں گے وفاقی حکومت گوادر پورٹ کو ترقی دینے میں ناکام رہی ہے۔ آج تک گوادر میں نئے ائر پورٹ کی تعمیر کے لئے زمین تک نہیں خریدی گئی اس سال بجٹ میں چند کروڑ رکھے گئے ہیں کہ گوادر پورٹ کے لئے ریلوے ٹرمینل کےلئے زمین خریدی جائے ابھی تک وفاقی حکومت گوادرپورٹ کے لےے پانی ‘ بجلی اور سڑکوں کا انتظام نہ کر سکی اور 15قیمتی سال ضائع کیے جبکہ چاہ بہار جو ایران میں ہے ایک ترقی کرتا بندر گاہ ہے جو گوادر سے صرف 72کلو میٹرکے فاصلے پر ہے ۔ ایران نے چاہ بہار پورٹ سے ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کردیا ہے ۔