ملک بھر کے اخبارات میں سینٹ قائمہ کمیٹی کا بیان چھپا ہے اور اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صرف بلوچستان میں چالیس لاکھ پاکستانی شناختی کارڈ غیر ملکیوں کو فروخت کردئیے گئے ۔ مزید 25لاکھ پائپ لائن میں ہیں ان کو بھی عنقریب بلوچ دشمنی میں جاری کردیا جائے گا۔ وجہ بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنا ہے ۔ شاید یہ مقتدرہ کی پالیسی ہے کہ بلوچ اس ملک کے سب سے زیادہ نا پسندیدہ شہری ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہاں کشت و خون کا بازار گرم رکھا گیا ہے اس کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا گیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی پہلی جمہوری حکومت بلوچستان میں قائم ہوئی تو اس کو تین چوتھائی اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل تھی نیشنل عوامی پارٹی اکیلے بلوچوں کی نہ صرف اکثریتی پارٹی بنی بلکہ اس نے دو تہائی اکثریت ووٹ حاصل کیے ۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں نیشنل پارٹی نے تین چوتھائی نشستیں حاصل کیں ۔ دوسرے الفاظ میں پانچ قومی اسمبلی کے اراکین میں سے چار کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا ۔ پھر مینگل حکومت کو نو ماہ تک ہراساں کرنے کے بعد بر طرف کردیا گیا ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ بلوچستان پر آنے والی حکومت اقلیتی جماعت کی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے بلیک میل ہو سکے ۔ وزرائے اعلیٰ دباؤ میں رہیں ۔ اپنی وزارت اور حکومت بچانے کے لیے پریشر گروپس کی ہر ناجائز بات تسلیم کریں ۔ اس لئے صوبائی حکومت اپنی بر طرفی کے خوف سے اہم ترین فیصلے نہیں کر سکتی جو بلوچ عوام کے مفاد میں ہو ۔ یعنی غیر قانونی تارکین وطن افغا نیوں کے خلاف کارروائی کی جرات نہیں کر سکتی وہ پاکستانی نہیں ہیں غیر ملکی ہیں ۔ غیر قانونی طورپر سرحد پار کرکے پاکستان آئے ہیں پاکستان میں وہ دہشت گردی اور سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ بلکہ ملک بھر میں ہر دہشت گردی کے واقعات میں افغان ملوث پائے گئے ،خودکش حملہ کرنے والوں میں اکثریت افغانوں کی تھی یعنی ان کے خلا ف بلوچستان میں کارروائی نہ کی جائے ۔اسلام آباد جو وفاقی دارالخلافہ ہے وہاں سے ان کی آبادیاں مسمار کی جارہی ہیں پشاور بلکہ پورے کے پی کے میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ عناصر افغان ہیں جن کے خلاف صوبائی حکومت روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کررہی ہے ۔ بلوچستان واحد جگہ ہے جہاں غیر قانونی تارکین وطن ‘ خصوصاً افغانستان سے آئے ہوئے چین کی زندگی بسرکررہے ہیں ۔ ان کے پاس سرکاری ملازمتیں ہیں بعض افغانی حساس ترین عہدوں پر تعینات ہیں ۔ اس بار پھر وفاقی حکومت لغرش کا مظاہرہ کررہی ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے کے دباؤ میں آ کر پھر افغان مہاجرین کے قیامیں توسیع کا اعلان کرنے والی ہے جو ملک دشمنی کا باعث ہے ۔ سابق حکمرانوں خصوصاً فوجی آمروں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغان مہاجرین ’’ قیمتی اثاثے ‘‘ ہیں ان کو مہاجر کیمپوں میں نہ رکھا جائے ان کو آبادیوں کے اندر رہنے دیا جائے ۔ اس کے بعد سے آج تک افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو تلاش کرنا ایک مشکل ترین کام بن گیا ہے ۔ اس تمام معاملے کا واحد حل یہ ہے کہ تمام افغانیوں بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو فوری طورپر افغانستان منتقل کیاجائے ۔ وہاں ان کو مہاجر کیمپوں میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ رضا کارانہ طورپر اپنے گھروں کو خود نہ چلے جائیں ۔ ان تمام مہاجرین یا دوسرے افغانیوں کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رکھا جائے اور بین الاقوامی برادری ان کے قیام اور طعام کا انتظام کرے ۔پاکستان کی سرزمین پر کسی بھی افغانی یا غیر ملکی کو رہنے کا حق نہ دیا جائے ان کو گرفتار کیا جائے ، جیلوں میں بند رکھا جائے تاوقتیکہ وہ خود اپنے ملک واپس جانا پسند نہ کریں ۔ افغانستان کے اندر ان کے کیمپ بنائے جائیں بلکہ ان کی تعمیر ابھی سے شروع کی جائے تاکہ تمام افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے دخل کیاجائے ۔ صرف پاکستانی ویزا حاصل کرنے والوں کو پاکستان میں رہنے کا حق ہے ۔
افغانستان میں مہاجرین کا کیمپ قائم کریں
وقتِ اشاعت : September 10 – 2015