|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2015

گوادر پاکستان میں اور چاہ بہار ایران میں دو بڑی بندر گاہیں ہیں جن کی تعمیر و ترقی کے وسیع امکانات ہیں ۔ مجموعی طورپر حکومت پاکستان نے گوادر کی ترقی بہت ہی محدود پیمانے پر شروع کررکھی ہے مگر اس کے مقابلے میں اس کی پبلسٹی آسمان تک پہنچائی گئی ۔ دوسرے الفاظ میں پاکستانی عوام کی توقعات میں بے پناہ اضافہ کیا گیایعنی گوادر کی تعمیر کے بعد پاکستان یورپ بن جائے گا۔ پوری کائنات اور دنیا کے طاقتور ترین ممالک گوادر کو تجارتی گزر گاہ کے طورپر استعمال کرنے کے لئے پاکستان کا رخ کریں گے مگر زمینی حالات یکسر مختلف ہیں ۔گوادر میں لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے، گھریلو استعمال کے لئے پانی نہیں ہے ، پینے کے پانی کا واحد ذریعہ آکڑہ کور ڈیم ناکام ہوگیا ہے یعنی خشک ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں گوادر کو کراچی اور میرانی ڈیم سے پینے کا پانی فراہم کیا گیا ہے۔ جنرل پرویزمشرف کی تعمیر کردہ ساحلی شاہراہ کے بعد شاہراہوں کی ترقی گزشتہ پندرہ سال سے روک دی گئی ۔ البتہ مکران میں کچھ سڑکیں تعمیر ضرور ہوئیں جو آخر کار گوادر تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہوں گی ۔ گوادر پورٹ کی سنگ بنیاد رکھتے وقت یہ اعلان بھی ساتھ ہی کردیا گیا تھا کہ گوادر کے لئے ایک بین الاقوامی اےئر پورٹ تعمیر ہوگی، اس بات کو پندرہ سال گزر گئے گوادر ائیر پورٹ کے لئے حال ہی میں زمین حاصل کی گئی اور اس پر ابتدائی کام انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جاری ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گوادر ائیر پورٹ اگلے بیس سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔ اس سال وفاقی حکومت نے گوادر پورٹ کے ریلوے یارڈ کے لئے زمین خریدنے کے لئے چند روپے رکھے ہیں کسی بھی سرکاری اہلکار کو یہ نہیں معلوم کہ گوادر کو ریل کے ذریعے کس مقام پر منسلک کردیا جائے گا۔ اصل ریلوے کا روٹ ‘ گوادر ‘ پنجگور ‘ پلانتک ‘ دالبندین ہے ۔ جو چاہ بہار ‘ زاہدان ریلوے کا نعم البدل ہوسکتا ہے ۔ اگر گوادر کو کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے سے کسی ایک مناسب مقام پر لنک کیاجائے تو چاہ بہار ‘ زاہدان ریلوے کی تعمیر کی ضرورت ہی نہیں پڑی گی ۔ خود گوادر پورٹ پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ’ آج دن تک کسی بیرونی تجارتی ادارے نے یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ گوادر پورٹ کے ذریعے تجارت کرے گا اس کے مقابلے ہزاروں فرم اور تجارتی ادارے چاہ بہار میں قائم ہیں بلکہ چاہ بہار پورٹ کو استعمال کررہے ہیں ۔ سینکڑوں بڑے بڑے ٹرک اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنا کارگو ایران کے مختلف علاقوں اور پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان پہنچائیں ۔ چاہ بہار بندر گاہ کا بنیادی ڈھانچہ ایک دہائی پہلے مکمل ہوگیا تھا اور اب بھی زیر استعمال ہے ۔ ایران اس ڈھانچے کو توسیع دے رہا ہے ۔ بھارت 85ملین ڈالر سے چاہ بہار بندر گاہ پر ایک کنٹینر ٹرمینل تعمیر کرنے کا معاہدہ کر چکا ہے ۔ بھارت چاہ بہار ‘ زاہدان ریلوے کی تعمیر میں اس لئے مدد دے گا کہ وہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کررہا ہے ۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ ہے اس لئے پاکستان نے بھارت کو گوادر کی بندر گاہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور بھارت اب چاہ بہار کے ذریعے تجارت کررہاہے ۔چاہ بہار اور گوادر کے درمیان فاصلہ صرف 72کلو میٹر ہے ۔ چاہ بہار کو بین الاقوامی تجارت میں زبردست پذیرائی ملی ہے ۔ جاپانی وفد چاہ بہار آیا اور پہلے ہی دن وہاں سٹیل مل قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لیے زمین خرید لی جس پر اسٹیل مل قائم ہوگی جو 33لاکھ ٹن اسٹیل پیدا کرے گی۔ کراچی کے اسٹیل مل کی پیداواری صلاحیت صرف ایک لاکھ ٹن ہے ۔ جاپان اس پر ساڑھے چار ارب ڈالر خرچ کرے گا دنیا کے دیگر ممالک ایران کے تعاون سے پیٹرو کیمیکل پلانٹ تعمیر کررہے ہیں ۔ اس پر لاگت کا اندازہ بیس ارب ڈالر ہے اور اس میں بیس ہزار مقامی افراد کو روزگار ملے گا۔ اس طرح بھارت کھاد کی فیکٹری تعمیر کرے گا جس پر لاگت کا اندازہ ساڑھے سات ارب ڈالر ہے ۔ اس کے علاوہ کار سازی کی صنعت پر اربوں ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ ایران خود کار سازی کی صنعت پر سرمایہ کاری کرے گا ۔ ابھی تک چاہ بہار میں سرمایہ کاری کا اندازہ پچاس ارب ڈالر سے زیادہ لگایاگیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں گوادر میں آج تک کوئی بیرونی سرمایہ کار نہیں پہنچا ہماری تمام تر امیدیں چین سے وابستہ ہیں ابھی تک پورٹ کی انتظامی امور سنبھالنے کے علاوہ گوادر بندر گاہ کے بنیادی ڈھانچے کو توسیع نہیں دی گئی ۔