افغان جہاد کے شروع ہونے کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک ہزار سے زائد مدارس آناً فاناً وجود میں آئے ۔یہ تمام مدارس دور دراز علاقوں میں قائم ہوئے ۔ مقامی لوگ اتنے غریب تھے اور ہیں کہ وہ اتنے بڑے بڑے مدارس اور تمام تر سہولیات کے ساتھ قائم نہیں کرسکتے تھے ،یہ سب بلوچستان اور کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقوں میں قائم کیے گئے مقامی لوگ آج بھی اتنے ہی غریب ہیں کہ وہ ان مدارس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔ دست غیب نے یہ مدارس قائم کیے اور دست غیب ہی ان کو چلا رہا ہے مقامی اور غریب لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے اگر ہے بھی تو وہ بھی بہت محدود پیمانے پر ۔ 1980ء کی دہائی اور اس کے فوری بعد مدارس کا تعلق جہاد افغانستان سے تھا ۔ اب جہاد ختم ہوگیا ۔ پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے عوام کا شوق جہاد پورا ہوگیا ہے ۔ اب پاکستان اپنے معمول کے تعلقات افغانستان کے ساتھ بحال کرنے کا خواہاں ہے ۔ اب یہ مدارس بھی جہاد پھیلانے کی نرسری بھی نہیں ہیں ۔ البتہ ان میں یہ شعور ضرورپایا جاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت کی جائے ۔ دین اسلام کی خدمت کی جائے بلکہ یہ نیک کام ریاست پاکستان کو کرنا چائیے ان تمام مدارس کوملک کے مربوط نظام تعلیم کا حصہ بنانا چائیے ۔ ان مدارس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی بھی تعلیم دی جائے ۔ ان تمام مدارس کے اخراجات ریاست پاکستان برداشت کرے اور ان سب مدارس کو مالی پریشانیوں سے آزاد کیاجائے ۔ کوئی شخص ‘ گروہ یا جماعت مدارس کے نام پر چندہ جمع نہ کرے، دیندار مسلمان اپنے تما م خیرات اور چندہ حکومت کے حوالے کریں اور مدارس میں تمام اساتذہ کو ریاست پاکستان تنخواہیں اور اچھی تنخواہیں ادا کرے ۔ حکومت اور مذہبی پارٹیوں کو اپنا دہرا معیار ختم کردینا چائیے ۔ اندرون خانہ نوکر شاہی مدارس کے خلاف اپنے نفرت کا اظہار کرتی ہے اور یہ کہتے نہیں تھکتی کہ مدارس ہی اصل میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ، دہشت گردوں کے ریکروٹمنٹ سنٹر کاکام کررہے ہیں اور ان دہشت گردوں کو موقع ملنے پر پناہ بھی فراہم کرتے ہیں وہ اس کی ثبوت میں وہ مثالیں پیش کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں دھماکہ خیز موجود تھا جو پھٹ گیا اور بعض لوگ ہلاک ہوئے ۔ بہر حال ایسے واقعات بلوچستان اورجنوبی پنجاب میں چند ایک مدارس میں پیش آئے اور سالوں قبل اس وقت صرف چند ایک مدارس پر شبہہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے لئے سہولیات فراہم کرتے ہیں جن کی تحقیقات کی جارہی ہے اور بعض پر پابندیاں بھی لگا دی گئیں ہیں تاہم مدارس میں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ زیادہ طلباء غریب ہیں اور اپنے تعلیمی اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ایسے طلباء کے لئے یہ مدارس بہترین کردار ادا کررہے ہیں جن کی تعریف کی جانی چائیے ۔ لیکن یہ متوازی نظام تعلیم ہے جس کو قابل قبول بنانے کے لئے ان اداروں میں جدید علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ طلباء دین و دنیا دونوں کی یکساں طورپر خدمت کرسکیں ان تمام مدارس کا مکمل انتظام ریاست اور ریاست کے ادارے چلائیں اور ان مدارس کی تمام مالی اور تکنیکی ضروریات بھی ریاست پوری کرے ۔ مدارس کو نظام حکومت کا حصہ بنایا جائے، مفاد پرست عناصر اور سیاسی اور مذہبی گروہ ان مدارس کو اپنے سیاسی مفادات کے تحت استعمال میں نہ لائیں ۔ عوام کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ یہ غیبی امداد کہاں سے آرہی ہے اور کون یہ امداد دے رہا ہے اور اتنی بڑی رقم خرچ کررہا ہے ۔ اگر کوئی کار خیر کررہا ہے تو ظاہری طورپر بھی اس کی تعریف ہونی چائیے ۔
مدارس اور نظام تعلیم
وقتِ اشاعت : September 14 – 2015