سندھ کے تین اہم ترین وزیروں نے گزشتہ روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ وفاق سندھ کے معاشی ترقی کے منصوبوں کو نظر انداز کررہی ہے اور اگر یہ رویہ جاری رہاتو سندھ پنجاب کو گیس کی ترسیل بند کر دے گا ۔ سید مراد علی شاہ نے یہ الزام لگایا کہ وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور مشترکہ مفادات کونسل کے سہ ماہی اجلاس نہیں بلا رہے اور ملک بھر میں انہوں نے شخصی حکومت قائم کی ہوئی ہے، مشترکہ مفادات کونسل کے تیس ماہ میں صرف چار اجلاس ہوئے حالانکہ اس مدت میں کونسل کے دس اجلاس ہونے چائیے تھے تاکہ چھوٹے اور محروم صوبوں کی داد رسی کی جاتی ۔ مگر ان اجلاسوں میں بھی سندھ اور اس کے مفادات کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اس کے مفادات کے خلاف فیصلے کیے گئے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے تھر کوئلہ کے ذخائر سے پنجاب تک خصوصی ریل کی پٹری بچھائی جارہی ہے تاکہ تھر پار کر سے پنجاب کو کوئلے کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے اور وقت پر پنجاب کو فراہم کی جائے ۔ جبکہ سندھ کے توانائی کے منصوبوں کو نظر انداز کیاجارہا ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر سندھ کو توانائی کے ذرائع اور سرمایہ کاری سے محروم رکھا گیا تو پورا ملک تاریک ہوجائے گا ۔ ایسی صورت میں سندھ پنجاب کو گیس کی ترسیل بند کردے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ستر فیصد توانائی کے ذرائع پیدا کررہا ہے اور خود توانائی کے ذرائع سے محروم ہے ۔ سندھ کے وزیر برائے اطلاعات اور سابق اسپیکر نثار کھوڑو بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے ۔ ان وزراء نے الزام لگایا کہ وزیراعظم پاکستان آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا ان پر آئین شکنی کا مقدمہ قائم ہونا چائیے کیونکہ انہوں نے بہ حیثیت چئیرمین مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس طلب نہیں کیے ۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے صرف چار بار اجلاس بلائے یہ وہ واحد ادارہ ہے جہاں پر صوبوں یا وفاقی اکائیوں کے مفادات کی نگرانی ہوتی ہے ۔ اگر کسی اکائی کو کوئی شکایت ہے تو یہی فورم ہے جس میں وہ آواز اٹھائے گا ۔ لہذا ہر تین ماہ بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جانا ضروری ہے اور یہ آئینی ضرورت بھی ہے ۔
موجودہ ماحول میں سندھ کو وفاق کے خلاف زبردست شکایات ہیں سندھ حکومت کے بعض اہم ترین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے وفاقی ادارے سندھ حکومت سے اجازت لیے بغیر یا اطلاع دئیے بغیر صوبائی امور میں زبردست مداخلت کے مرتکب پائے گئے ہیں بلکہ سندھ حکومت کا سرکاری ریکارڈ بھی زبردستی اور غیر قانونی طورپر لے گئے جس پر سندھ کے وزیراعلیٰ نے احتجاج بھی کیا مگر وزیراعلیٰ کی بات کسی نے نہیں سنی ۔ان تمام اقدامات سے صرف ایک مخصوص ذہنیت کا مظاہرہ نظر آتا ہے کہ سندھ یا دوسرے چھوٹے صوبے وفاق پاکستان کے برابر کے حصہ دار نہیں ہیں ان کی حکومتیں اور عوام دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری ہیں ۔ لہذا حکمرانوں کی مرضی ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں اور اس کی شہریوں سے جس طرح کا چاہے سلوک کریں ۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور یہ وفاق رضا کارانہ طورپر بنایا گیا ہے۔ کسی نے سندھ اور بلوچستان کے علاقے فتح نہیں کیے نہ ہی یہ مفتوحہ علاقے ہیں ۔ آئین پاکستان کے مطابق ان سب کے حقوق برابر ہیں ، کسی کے بھی حقوق کم تر نہیں ہیں ۔ ہر وفاقی اکائی کی اپنی اسمبلی ہے اپنی صوبائی حکومت ہے ۔ اپنی انتظامیہ ‘ اپنی عدلیہ ہے ‘ لہذا کوئی بھی وفاقی ادارہ یاملازم دوسرے وفاقی اکائیوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے ۔ سندھ کا یہ حق ہے کہ وہ نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو صوبہ بدر کرے ۔ اور سندھ رینجرز صرف اور صرف سندھ حکومت کے احکامات پر کارروائی کرے، اپنے طورپر نہ کرے سندھ رینجرز کو صرف سند ھ پو لیس کی مدد کرنی چائیے از خود کارروائی سے گریز کرنا چائیے تاکہ حکومت سندھ سے سندھ کے عوام کو شکایات ہوں،وفاقی اداروں سے نہ ہو ں ۔
سندھ تصادم کی راہ پر
وقتِ اشاعت : September 17 – 2015