کوئٹہ: بی این پی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ آج تک آزاد نہیں ہوئی جسٹس منیر سے لیکرآج تک عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت چل رہی ہے عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔یہ بات انہوں نے جمعہ کو اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کرنے والے وکلاء کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی جس میں جمیلا سحر لانگو،عندلیب قیصرانی،صباء خان ،سعدیہ رفیق رئیسانیٗ،رخسانہ عزیز ، ثمینہ کنول سرپرہ اور ریحانہ اکبر شامل تھیں اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کوئٹہ کے آرگنائزر میر اختر حسین لانگو،وکلاء فورم کے آرگنائزر شمس رند ایڈووکیٹ،میراحمد نواز بنگلزئی ،نوید دہوار بھی موجود تھے۔ سرداراختر جان مینگل نے کہا کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ نے اپنی الوداعی تقریب میں عدلیہ کی ناکامی کا اعتراف کیا کہ عوام نے عدلیہ بچاؤ تحریک کے بعد عدالتوں سے جلد اورسستے انصاف کی توقعات وابستہ کی تھیں اس پر ہم پورا نہیں اترسکے جب آزاد عدلیہ کی تحریک چلی تو ہمارا موقف تھا کہ یہ تحریک عدلیہ کی آزادی اورا نصاف کے حصول کیلئے نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کیلئے سب اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ملک کے دو اہم ستون عوام کو کچھ دینے کی بجائے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ اس ملک میں جس نے بھی جمہوری انداز میں آواز اٹھانے کی کوشش کی انکی نسل کشی کی گئی حبیب جالب اور فیض جیسے شخصیتوں کی مثال ہمارے سامنے ہے اگرانکی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کی قدر کی جاتی تو آج ملک میں سینکڑوں جالب اور فیض پیدا ہوتے جسطرح انکی کردار کشی اور نسل کشی کی گئی انکی جگہ درباری شاعروں نے لی انکی تعداد آج بڑھ گئی ہے آزاد عدلیہ کی تحریک کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور سیاستدان سب اپنے اپنے مفادات کیلئے ایک ساتھ ہوئے دنیا میں جہاں بھی جمہوریت رہی وہاں طاقت کاسرچشمہ عوام رہے مگر ہمارے ہاں طاقت کا سرچشمہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے میں خود اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہوا تھا اسکی مثال آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کبھی بھی تعلیم کے مخالف نہیں رہے بلکہ ہماری ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ نوجوان نسل جو ہمارے مستقبل کے معمار ہیں انکے ہاتھوں میں بندوق کی بنائے قلم اور کتاب ہونی چاہئے لیکن آج ہمارے نوجوان قلم اورکتاب کی بنائے بندوق کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم سیاسی اور جمہوری طور پر 50سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زوردیا کہ تعلیم صرف ڈگری کے حصول کیلئے نہیں ہونی چاہئے ہمیں سند یافتہ جاہلوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جنہوں نے الیکشن کرانے ہیں انکے کیا ارادے ہیں وہ بہتر جانتے ہیں جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب الیکشن ہونے چاہئے تب الیکشن ہونگے ہماری مرضی اور منشاء سے الیکشن نہیں ہونگے کاش سب کچھ ہماری سوچ کے مطابق ہوتے ہم اس صوبے کے عوام کیلئے الیکشن سے بڑے بڑے فیصلے کرتے۔ سرداراختر جان مینگل نے وکلاء پر زوردیا کہ آپ کا تعلق ایسے شعبے سے جب لوگ ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں تب وہ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے آج انصاف اس قدر مہنگاہوچکا ہے کہ ہر شخص اسے حاصل نہیں کرسکتاآپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی میں اپنا بھر پور کردارادا کریں۔سرداراختر جان مینگل نے کہا کہ ہم عدلیہ سمیت ملک کے تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں اوران سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ عوام کیلئے بہتراورمثبت فیصلے کریں گی۔اس موقع پر میں جمیلا سحر لانگو،عندلیب قیصرانی،صباء خان ،سعدیہ رفیق رئیسانیٗ،رخسانہ عزیز ، ثمینہ کنول سرپرہ اور ریحانہ اکبراور دیگر نے باقاعدہ بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کوئٹہ کے آرگنائزر میر اختر حسین لانگو،وکلاء فورم کے آرگنائزر شمس رند ایڈووکیٹ نے شمولیت کرنے والے وکلاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت پر مبارکباد د ی۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بلوچستان اورمرکزکے درمیان مضبوط روابط کے دعویداراتنے احسان فراموش نہیں کہ وہ اپنے محسنوں کوفراموش کردے گوادر کوترقی کی راہ پرگامزن کرنے والوں نے اب تک گوادرکوایرانی بجلی کامحتاج کررکھاہے مرکز ماضی میں بلوچستان سے سوتیلی ماں جیساسلوک کرتاتھامگراب توماں جیساسلوک بھی نہیں کیاجاتاوزیراعظم میاں محمدنوازشریف پاکستان کے نہیں بلکہ ایک صوبے کے وزیراعظم ہے ان خیالات کااظہارانہوں نے آن لائن سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ کسی بھی معاشرے میں آزادمیڈیااہمیت کی حامل ہوتاہے تاہم بدقسمتی سے الیکٹرونک میڈیانے مرکزکے نوآبادیاتی فکر کواپناتے ہوئے بلوچستان کے مسائل اجاگرکرنے پرپابندی عائد کررکھی ہے جس کی وجہ سے ہم نے ان سے بائیکاٹ کیااس کامقصد محض صرف یہ تھاکہ یہاں کامقامی میڈیااپنے مالکان کے سامنے بے بس ہے ہم نہیں چاہتے کہ وہ اپناایندھن اورانرجی ضائع کرے تاہم ایک بارپھرہمیں تسلی دی گئی ہے کہ بلوچستان کے مسائل پرالیکٹرونک میڈیااپناطرز فکرتبدیل کریگاانہوں نے کہاکہ صوبے کے حکمرانوں کی جانب سے جس طرح مرکز کے مضبوط رشتوں کاراگ الاپاجارہاہے کہ موجودہ حکمران اپنے محسن کے احسانوں کوفراموش نہیں کرسکتے جنہوں نے انہیں اقتدارسونپاان کااحسان فراموش ہونادرست نہیں اورایسے بیانات دیکرحکمران اپنے مدت اقتدارکوبڑھانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تاہم بلوچستان کے مجموعی حالات کے پیش نظرمیں اتناضرور کہوں گاکہ یہاں آنے والی تمام قوتوں نے بلوچستان کے لوگوں کومحض بہلایاہے ان ترقیاتی منصوبوں کوپایہ تکمیل تک پہنچایاگیاہے جس سے ان کواپنافائدہ تھامگربلوچستان کے لوگ آج بھی ضروریات زندگی کیلئے دردرکی ٹھوکریں کھارہاہے ہیں محض پانچ فیصد حصوں تک گیس پہنچائی گئی ہے جبکہ دیگرصوبوں کے ہرگاؤں تک گیس پہنچادی گئی ہیں انہوں نے کہاکہ گوادرکاشغراقتصادی راہداری درحقیقت اہل بلوچستان کواقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے تاکہ ان کے وسائل کولوٹاجاسکے ہمیں محض یہ باورکرایاجائے کہ بلوچستان کے کن علاقوں کواکنامکل زون کیلئے منتخب کیاگیاہے جولوگ گوادر ترقی یافتہ بنانے کاواویلاکررہے ہیں انہوں اب تک گوادرکوایرانی بجلی کامحتاج بنارکھاہے ایران جب چاہئے گوادرکی بجلی بند کرسکتاہے انہوں نے کہاکہ کیااہل اقتدارنے گوادرمیں نوجوانوں کوتربیتی ادارے قائم کرکے دئیے ہیں کہ جہاں وہ اس معیارپرپورااترسکے کہ جس معیارکے مطابق آنے والے وقت میں گوادرمیں لوگوں کوملازمتیں دی جائیں گی انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کوبارہابلوچستان کے مسائل سے متعلق اپنے تحفظات کااظہارکرچکے ہیں اوراپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ خود بلوچستان کی احساس محرومی کی بات کرتے تھے آج یہ بتانے کاوقت آچکاہے کہ کیاانہوں نے بلوچستان کی احساس محرومی کاخاتمہ کیاہم سمجھتے ہیں کہ اس میں صرف اضافہ ہواہے میاں محمدنوازشریف پورے پاکستان کے نہیں بلکہ صرف ایک صوبے کے وزیراعظم ہے انہوں نے کہاکہ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہونگے جب تک دونوں جانب سے فائربندی نہیں ہوگی مذاکرات کی پہلی شرط سیز فائرہے دھماکوں اورگولیوں کی گونج اورگرتی لاشوں کے ہوتے ہوئے مذاکرات نہیں ہوسکتے لہذاء ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں جانب سے فائربندی پہلااقدام ہوناچاہئے انہوں نے کہاکہ اسمبلیوں کی اہمیت سے انکارنہیں کرسکتے مگرموجودہ حکمران خود اسکی اہمیت سے ناواقف لگتے ہیں جہاں ایک جانب اہل اقتداربلوچستان کامسئلہ حل کرنے کے دعوے کررہے ہیں چائناکے ساتھ معاہدات کئے جاتے ہیں ریکوڈک کے مسئلے کوعالمی عدالت میں اٹھایاجاتاہے وہی اسمبلی کے ایک چھوٹے سے مسئلے اسپیکرکے انتخاب کویقینی نہیں بنایاجاتااورحکمران اس کیلئے ہاتھ اٹھانے تک کی زحمت نہیں کررہے جہاں اسمبلی کااجلاس مقررہ دن پورے کرنے کیلئے بلایاجاتاہے وہاں جانے کاکیافائدہ ہوگاانہوں نے کہاکہ ہم بلوچستان کے عوام کویہاں کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنے پارٹی کومزیدمنظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ یہاں کے مسائل کواجاگرکیاجاسکے۔