|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2015

ایک طویل عرصے بعد حکومت بلوچستان کو یہ خیال آہی گیا کہ عوامی مفادات کی نگرانی کے لئے قانون سازی ضروری ہے شاید اس فکر کے تحت صوبائی حکومت کے اجلاس میں بلوچستان فوڈ اتھارٹی کے قیام اور نجی تعلیمی اداروں کو چلانے یا ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین کی منظوری دی گئی ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب اس صوبے میں ایک قانون موجود ہوگا جس کے باعث نجی تعلیمی ادارے من مانی نہیں کرسکیں گے۔ یہ عام بات ہے بلکہ عام شکایات ہیں کہ نجی اسکول لوٹ مار میں ملوث ہیں سوائے چند ایک نامی گرامی اور مشہور اسکولوں کے ۔ اب ان اسکولوں کی فیس اور دوسرے امور کے لیے قوانین مرتب ہوں گے اور ان کو جلد سے جلد نافذ کیاجائے گا تاکہ بلوچستان بھر میں طلباء اور ان کے والدین کے جائز مفادات کا تحفظ ہو۔ حالیہ سالوں میں بعض تعلیمی ادارے کمرشل بنیادوں پر بنائے گئے ہیں، اب وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح کام کررہے ہیں اور انہوں نے بے پناہ دولت جمع کی ہے ۔ بچوں سے بہت بڑی بڑی فیسیں اور رقم بٹورتے ہیں اور اربوں روپوں کی کمائی سالوں میں کما رہے ہیں ۔ ایسے اسکولوں کی برانچیں بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں قائم ہیں اور وہ کراچی ‘ لاہور ‘ اسلام آباد ‘ راولپنڈی کے پیمانے پر لوٹ مار میں ملوث ہیں بلکہ اب یہ ادارے تعلیمی نہیں رہے یہ مافیا بن چکے ہیں اور پاکستان بھر میں ان کا اثر ورسوخ سماج اور حکومت میں خطر ناک طورپر بڑھ گیا ہے۔ ان میں سے بعض اداروں نے اپنے ناجائزمفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے اپنے اخبارات بھی نکالے ہیں جو ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شائع ہورہے ہیں ۔ہم بنیادی طورپر تعلیم کو تجارت بنانے کے مخالف ہیں بلوچستان ملک کا غریب ترین اور پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پر 99فیصد آبادی کے پاس یہ سکت نہیں ہے کہ وہ تجارتی بنیادوں پر تعلیم حاصل کرے ۔ اس لیے ایسے تمام تعلیمی اداروں کو جو صرف اور صرف تجارتی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی صوبے کے حد تک ضرور کی جائے اور سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم میں اضافہ کرکے ان تجارتی بنیادوں پر قائم تعلیمی اداروں کے برابر لایا جائے ۔ بنیادی تعلیم اس صوبے کے ہر شہری کا حق ہے حکومت سب سے پہلے اس حق کو نہ صرف تسلیم کرے بلکہ مناسب اقدامات بھی اٹھائے کہ بلوچستان کے ہر بچے کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کیاجائے ، تعلیم معیاری ہو، کسی بھی ا عتبارسے کم نہ ہو ۔ اس لئے حکومت اپنا کنٹرول اور ڈسپلن محکمہ تعلیم پر مستحکم کرے او رافسران پر یہ واضح کیا جائے کہ صوبے میں نہ کوئی ’’ بھوت اسکول ‘‘ اور نہ ہی ’’ بھوت اساتذہ ‘‘ سب کو اسکول میں حاضر ہونا ہوگا۔ حکم عدولی کی صورت میں ان اساتذہ کو نہ صرف بر طرف کیاجائے بلکہ پوری زندگی ان کو جتنی تنخواہ سرکاری خزانے سے دی گئی واپس وصول کی جائے ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے خلاف سخت ترین سزائیں تجویز کی جائیں تا کہ بچوں کے مستقبل سے کسی کو کھیلنے کی جرات نہ ہو۔ہاں اگر استاد اچھا ہے ‘ محنتی ہے ‘ ایماندار ہے تو اس کی عزت کی جائے ۔ صوبائی حکومت کے اجلاس میں دوسرا اہم قانون کا مسودہ جو منظور ہوا وہ بلوچستان فوڈ اتھارٹی کا قیام ہے ۔ یہ ایک اہم قانون ہے ۔ عوام الناس کو ساٹھ سالوں سے اس قانون سے محروم رکھا گیا ہے ۔ بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں پر ملاوٹ کی شکایات سب سے زیادہ ہیں ۔ غیر معیاری اشیاء فروخت ہورہی ہیں ۔ صوبے میں سب سے بڑ ا کاروبار جعلی ادویات کا ہے ۔ جعلی گھی ‘ تیل اور کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ عام ہے ۔ دل چسپ ترین بات یہ ہے کہ دکاندار حضرات جعلی اور ملاوٹ شدہ اشیاء ایجنٹوں سے خریدتے ہیں اور اسی فیصد تک کمیشن حاصل کرتے ہیں جبکہ قانونی کمپنی صرف دس سے پندرہ فیصد کمیشن دیتی ہے ۔ قانون دکاندار کو سب سے پہلے گرفت میں لائے اس کو گرفتارکرے، اس پر زبردست جرمانے عائد کیے جائیں بلکہ ان کی تمام جائیداد ضبط کی جائے اور ان کے توسط سے جعلی اشیاء فروخت کرنے والے فیکٹریوں کے مالکان اور ایجنٹوں کو گرفتار کیاجائے ۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ یہ اتھارٹی خواتین کے حوالے کی جائے کیونکہ وہ قانون پر جلد سے جلد عمل درآمد کرانے کا جذبہ رکھتی ہیں مردوں کو صرف ٹوکن نمائندگی دی جائے تاکہ ان کا اثر ورسوخ کم سے کم رہے ۔