آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باوجوہ نے کہا ہے کہ افغانوں کی موجودگی ملک کی سلامتی کے لئے ایک سیکورٹی رسک ہے یہ بات انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہی جس میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بڈھ بیر ہوائی اڈہ پر حملہ کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور اس دہشت گرد انہ حملے کو افغانستان سے کنٹرول کیا گیا تھا ۔اس سے قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں اسکول کے بچوں پر حملے کی منصوبہ بندی اور اس کو کنٹرول افغانستان سے کیا گیا تھا ۔ پشاور اسکول میں 150 سے زائد بچے اور اسکول کے اسٹاف ممبران شہید ہوئے تھے ۔بڈھ بیر کے ہوائی اڈے کے حملے میں مجموعی طورپر 42افراد ہلاک ہوئے جن میں 13دہشت گرد بھی شامل تھے ۔ ان میں فوج کا ایک افسر اور پاک فضائیہ کے دو اہلکار بھی شہید ہوئے ۔ ابھی تک ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ اس میں افغان دہشت گرد ہیں یا نہیں ۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ افغان سہولت کار ضرور شامل ہیں کیونکہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس کارروائی کو کنٹرول کیا گیا ۔ لہذا افغان سہولت کاروں کے بغیر یہ کارروائی ممکن نہ تھی ۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے تمام شواہد پاکستانی حکام نے افغانستان کے حکمرانوں کے حوالے کیے اور یہ ثابت کیا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے اور اس کے ثبوت بھی فراہم کردئیے گئے ۔ بڈھ بیر حملے سے متعلق تفتیش جاری ہے اور شواہد بتاتے ہیں کہ افغان سرزمین اس بار پھر پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لئے استعمال ہوئی ہے یقیناًاس کا بھی باقاعدہ ثبوت افغان حکمرانوں کو پہنچایا جائے گا ۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغان تارکین وطن کا پاکستان میں موجودگی کا کوئی قانونی اور انسانی بنیادوں پر جواز نہیں ہے ان کی زندگی کو افغانستان میں خطرات لاحق نہیں ہیں ۔ افغان پاکستان کی سرزمین پر صرف معاشی بنیاد اور وجوہات کی بناء پر موجود ہیں جو غیر اخلاقی ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے کا یہ جواز احمقانہ ہے کہ افغان مہاجرین بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو معاشی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں رہنے دیاجائے ۔ اب اس بات کی تصدیق جنرل عاصم باجوہ نے کردی ہے کہ افغان بشمول غیر قانونی تارکین وطن سیکورٹی رسک ہیں اوروہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں ہر دہشت گردی کے واقعے میں افغانوں کے پیر کے نشان مل جاتے ہیں اب کی بار تو بڑے پیمانے پر افغان اسلحہ اسمگل کرتے ہوئے گرفتا رہوئے اوران کے پاس سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد بھی ہوا ۔
ان حالات میں پاکستانی عوام یہ جائز توقعات رکھتے ہیں کہ وفاقی حکومت افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع نہیں کرے گی اور اقوام متحدہ یا بین الاقوامی برادری کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔ ان تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو 31دسمبر کے بعد ملک میں رہنے نہ دیاجائے اور ان کی تمام غیر قانونی بستیوں کو مسمار کیا جائے جب تک کہ ان کا انخلاء مکمل ہوجائے ۔ اس سے قبل ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جائے جو بغیر قانونی دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہوئے ۔ ان کی تعداد افغان مہاجرین کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے ۔ صرف قانونی دستاویزات رکھنے والے افغانیوں کو پاکستان میں رہنا دیا جائے اور تمام کو قانونی کارروائی اور سزا کے بعد ملک بدر کیاجا ئے یا افغان حکام کے حوالے کیے جائیں۔ ابھی تک صرف اسلام آباد کی حدود میں ان کے خلاف محدودکارروائی کی گئی ہے ۔ کے پی کے کی حکومت نے بھی تھوڑی بہت کارراوئی کی ہے اور ہزاروں افغانوں کو بے دخل کیا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان حکومت نے آج تک ایک بھی غیر قانونی تارکین وطن افغان کو گرفتار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ملک سے بے دخل کیا ہے ۔ حالانکہ وہ ریاست پاکستان کے خلاف ایک سیکورٹی رسک ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں ۔
افغانیوں کی موجودگی ‘ سیکورٹی رسک
وقتِ اشاعت : September 21 – 2015