بلوچستان کے عوام کو پی آئی اے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے دیرینہ شکایات ہیں جن کا بہت طویل عرصے کے بعد وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھرے جلسہ میں دوبارہ تذکرہ کیا۔ دنیا بھر میں سہولیات میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کو کبھی بھی واپس نہیں لیا جاتا ۔ پاکستان واحد ملک ہے جس میں عوامی مفادات کے ادارے عوام الناس کو دی ہوئی سہولیات وپس لے رہے ہیں ۔ ان میں سرفہرست پی آئی اے ‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پاکستان ریلوے شامل ہیں ’ بلوچستان سے کئی مسافر ٹرینوں اور دوسری گاڑیوں کو بند کردیا گیا ۔ اسی طرح پی آئی اے نے مختلف بہانوں سے بہت بڑی تعداد میں فلائٹس کو بند کردیا ۔ سی آئی اے نے کئی ائر پورٹ بند کیے ۔ یہاں تک کہ کوئٹہ کا اےئر پورٹ بین الاقوامی معیار کا نہیں ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے کو حج کی پروازیں چلانے میں دشواری پیش آئی بلکہ پی آئی اے نے بڑے جہازوں کے بجائے چھوٹے جہازوں کو استعمال کیا جس کی وجہ سے پی آئی اے کے اخراجات میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی حجاج کو پہنچانے میں تاخیر بھی ہوئی۔ اگر اےئر پورٹ کا رن وے اور تمام سہولیات بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتیں تو پی آئی اے کو اضافی اخراجات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ اسی طرح پاکستان کا سب سے زیادہ معروف ترین اےئر پورٹ کراچی تھا اور ملک میں دوسرے نمبر پر زیادہ مصروف ترین اےئر پورٹ تربت تھا ، لاہور اور اسلام آباد نہیں تھے۔ پی آئی اے تربت کے لیے ایک ہفتے میں 51پروازیں چلاتی تھیں اور اب ہفتے میں صرف چند دن ۔اس طرح مکران ساحل کی پروازوں میں زبردست کمی لائی گئی جس کی وجہ سے گوادر ‘ پسنی ‘ اورماڑا ‘جیونی ‘ پنجگور کے لیے شاذو نادر ہی کوئی پرواز چلائی جاتی ہے ۔ بعض ائر پورٹس پر تو گزشتہ پندرہ سالوں سے کوئی پرواز نہیں چلائی گئی اس طرح ژوب ‘ سبی او ردوسرے اےئر پورٹ بند ہیں ۔ دالبندین کا بھی اےئر پورٹ عملاً بند ہے ۔ بلوچستان کے عوام کو یہ تمام تر سہولیات حاصل تھیں جو وفاقی حکومت کی معاندانہ پالیسی کی وجہ سے عوام سے واپس لے لی گئیں ’ ظلم خدا کا کہ ہمارے تمام نمائندے وفاقی اسمبلی اور سینٹ میں گونگے اور بہرے ہوگئے ہیں ان کو اپنی ذاتی مراعات کی فکر ہے ان کو معلوم ہی نہیں کہ بلوچستان کے عوام سے کتنی سہولیات واپس لی گئیں ’ ان کو یہ معلوم کرنے کی دل چسپی نہیں ہے کہ عوام الناس کے ساتھ کیا سلوک ہورہاہے ۔ ادھرکوئٹہ سے دبئی ‘ زاہدان اور مشہد کی براہ راست پروازیں بند کردی گئیں ’ وجہ عوام الناس کو معلوم نہیں ’ اس طرح کوئٹہ سے اسلام آباد ‘ لاہور ‘ کراچی اور ملتان کی پروازوں میں کمی لائی گئیں یہ سب کام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو سہولیات عوام الناس کو پہلے دی جارہی تھیں ان کو نہ واپس لے سکتے ہیں اور نہ بند کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک لوگوں کو روزگار دینے کا تعلق ہے اس میں ملک کے تمام سرکاری ادارے ‘ وفاقی اور صوبائی ملوث ہیں ۔ ان سب کی مشترکہ کوشش ہے کہ بلوچ کو کسی بھی قیمت پر روزگار فراہم نہ کیا جائے ۔ بلوچستان اور بلوچوں کے نام پر تمام غیر بلوچوں کو سرکاری روزگار فراہم کیا جائے ۔ موجودہ حکومت نے نظریہ ضرورت کے تحت اس کو تسلیم کر لیا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بلوچ عوام کو زیادتی کا نشانہ بنائیں اور بلوچ حکمران خاموش رہیں ۔ جب لوگ احتساب کریں گے اس وقت سیاسی اتحادی ان کی امداد کو نہیں آئیں گے، ان کو خود جواب دینا ہوگا۔ چنانچہ پی آئی اے ‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ریلوے میں آٹے میں نمک کے برابر بلوچوں کو روزگار دیا جارہا ہے۔ وفاقی اداروں کو شرم آنی چائیے کہ صوبے کا منتظم اعلیٰ یہ شکایات ان کے منہ اور سامنے کررہا ہے کہ اس کی بات نہیں سنی جاتی تو کس کی بات سنی جائے گی ۔ ہمارے حکام بالا کو یہ مشورہ ہے کہ بلوچستان کو ایک بلوچ قومی اکائی سمجھیں اور ملازمتوں میں صرف بلوچوں کو اولیت دیں ۔ یہ ان کا حق ہے ، ثقافتی اقلیت کا حق بعد میں آتا ہے ۔ صوبائی حکومت اس کے محکمے اور ادارے بھی یہی اصول اپنائیں کہ پہلے بلوچ کا حق ہے اور بعد میں صوبے میں ثقافتی اقلیتوں کا ۔ثقافتی اقلیت کو اولیت دینا نہ صرف نا انصافی ہے بلکہ غیر قانونی اور غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے کہ اکثریت کو اس کے حق سے محروم کیاجائے ۔
بلوچستان کی شکایات اور پی آئی اے
وقتِ اشاعت : September 22 – 2015