وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ بڈھ بیر دہشت گردانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک افغان باشندہ ہے اور اس کو چارسدہ سے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر اپنی شدید برہمی کا اظہار کیا کہ سیکورٹی افسران نے ہلاک شدہ دہشت گردوں سے متعلق کوائف مزید تصدیق کیے بغیر میڈیا کو بتائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان دہشت گردوں میں صرف پانچ پاکستانی ہیں ۔ ان میں دو سوات کے علاقے اور تین خیبر ایجنسی کے ہیں ۔ باقی نو دہشت گردوں کے متعلق ہمارے ملک میں کوئی کوائف موجود نہیں ہیں اور گمان ہے کہ وہ سب کے سب افغان ہیں ۔ ان دہشت گردوں کی تعداد 13نہیں بلکہ 14تھی ۔ ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری کے بعد یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ باقی نو دہشت گردوں کی شناخت ہوجائے گی روز اول سے فوج کے ترجمان جنرل عاصم باوجوہ کا کہنا تھا کہ بڈھ بیر پر دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ افغانستان میں بنایاگیا ہے اور وہاں سے ہی اس کی تمام کارروائی کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ اس لئے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اس دہشت گردی کے واقعہ کو افغان حکمرانوں کے سامنے اٹھایا جائیگا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔ جنرل عاصم باجوہ نے ابتداہی میں یہ کہہ دیا تھا کہ ممکن ہے کہ افغان حکومت اور ریاست اس میں ملوث نہ ہومگر افغان سرزمین ضرور استعمال ہوئی ہے ۔ پاکستان سالوں سے یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ وہ پاکستانی افواج اور سرحدی چوکیوں پر حملہ نہ کر سکے اور پاکستان ملا فضل اللہ کے شر سے محفوظ رہے ۔ ملافضل اللہ سوات آپریشن کے دوران ملک سے فرار ہوگئے تھے اور انہوں نے افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے اور وہاں سے وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح کے کئی اور گروہ بھی ہیں جو افغانستان سرزمین استعمال کررہے ہیں جس پر پاکستان نے با قاعدہ طورپر افغانستان سے براہ راست احتجاج بھی کیا تھا ۔ اب یہ افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو روک دے اور پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے بند کرائے ۔ دوسرا اہم انکشاف یہ تھا کہ افغان شہری ملوث ہیں ۔ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان ہیں جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں ۔ وہ پاکستان میں غیر قانونی طورپر داخل ہوئے ہیں ان میں سے اکثر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اس پر جنرل عاصم باجوہ نے کہا تھا کہ افغان اس ملک میں ایک سیکورٹی رسک ہیں اور انہوں نے واضح طورپر یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع نہ کرے کیونکہ افغان مسلسل طورپر پاکستان کی سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ ہیں اس لئے ان کو جلد سے جلد واپس بلایا جائے ۔ بعض عناصر افغانوں کی غیر قانونی موجودگی کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں غیر ملکی ہیں ، ان کے پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے پاکستان میں صرف وہ افغان رہ سکتے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لئے قانونی دستاویزات ہوں ۔ اگر کسی بھی افغان نے جعلی شناختی کارڈ بنائے ہیں یا پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیے ہیں یا دوسرے پاکستانی دستاویزات جعل سازی کے ذریعے حاصل کیے ہیں ، وہ مجرم ہیں اور سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ بلکہ وہ تمام افسران جنہوں نے غیر قانونی کام کیے وہ زیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں بشمول ان لوگوں کے جنہوں نے ان کے جعلی دستاویزات کی تصدیق کی ہے ۔ بعض سیاسی عناصر لفاظی کے ذریعے افغانوں کی موجودگی کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ وہ حکومت میں ہیں ان کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ غیر قانونی افغان تارکین وطن کے خلاف بھرپور کارروائی کریں جیساکہ کے پی کے کی حکومت اور وفاقی حکومت اسلام آباد میں کررہی ہے ۔بلوچستان میں ابھی تک ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا آغاز صرف سیاسی وجوہات کی بناء پر نہیں ہو اور نہ موجودہ حکومت ان کے خلاف کارروائی کا ادارہ رکھتی ہے ۔ جنرل عاصم باجوہ کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان پاکستان میں ایک سیکورٹی رسک ہیں ۔
وزیر داخلہ کا انکشاف
وقتِ اشاعت : September 23 – 2015