|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2015

پورے ملک سے یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ قربانی کے جانوروں کی خریداری میں پرانی جیسی گہما گہمی نہیں رہی صرف آخری چند روز کی خریداری میں اضافہ ہوا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں پہلے تو ملک بھر میں شدید قسم کا معاشی بحران ہے اور لوگوں کی قوت خرید بہت زیادہ گر گئی ہے ۔ لوگوں میں یہ سکت باقی نہیں رہی کہ ضروریات زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے بعد کوئی خریداری کریں ۔ خاص طورپر عید قربان پر قربانی کے جانور خریدیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جانوروں کی قیمتیں آسمان پر ہیں اور غریب لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ افراط زر نے روپے کی قیمت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے اشیاء اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ صرف امیر گھرانے کے لوگ ہی قربانی کے جانور خریدنے آئے ہیں ۔ غریب بے چارہ اس کا انتظار کرے گا کہ کوئی پڑوسی قربانی کرے گا تو اس کو بھی گوشت کا ایک معمولی حصہ مل سکتا ہے ۔ اسی لئے مذہب میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ عید کی خوشیاں غریبوں کے ساتھ مل کر منائیں اور غریب لوگوں کو شریک کریں ۔ ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ غریب آبادیوں میں ایک آدھ گھر میں قربانی کرنے کا اشارہ ملتا ہے اور لاکھوں افراد خصوصاً غریب لوگ قربانی کے گوشت سے محروم رہتے ہیں ۔ اس لئے ان غریب لوگوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ضروری ہے ۔ سب سے اہم ترین سبق قربانی کا ہے ۔ لوگ قربانی دیں خصوصاً اپنے قوم اور وطن ‘ بلوچستان کے حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ صوبے بلکہ ملک کو موجودہ مشکلات سے نکالا جائے امن کی صورت حال دوبارہ اور جلد سے جلد بحال کی جائے تاکہ لوگ اپنی معمولات زندگی کو واپس لائیں ۔ اس کے ساتھ ہی ملک کی مجموعی صورت حال بھی پریشان کن ہے ۔ بھارت عنقریب پاکستان کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ یقیناً اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا ۔ گزشتہ سالوں سے بھارت سرحدی علاقوں پر مسلسل فائرنگ کررہا ہے سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہورہے ہیں ۔ دوسری طرف افغانستان کی طرف سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ تازہ واقعہ بڈھ بیر کے ہوائی اڈے کا ہے جہاں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ دفاعی افواج اور ان کے رشتہ داروں کو ہلاک کیا جائے اس پر ملک بھر میں شدید غصہ ہے کہ افغانستان آئے دن ہمارے معاملات میں نہ صرف مداخلت کررہا ہے بلکہ اس کے لاکھوں شہری جو پاکستان میں موجود ہیں ان میں سے بعض دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور زیادہ تر ان کے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے فوج کے ترجمان نے یہ کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان باشندے پاکستان کے سیکورٹی رسک ہیں ۔ اس لئے محب وطن پاکستان اپنے اس مطالبے پر زور دیتے ہیں کہ ملک سے افغان غیر قانونی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا جائے ۔ اس کے علاوہ افغان مہاجرین کو مزید پاکستان میں رہنے کی اجازت نہ دی جائے اور اس سال دسمبر کے بعد ان کو پاکستان میں رہنے کی اجازت نہ دی جائے اور اقوام متحدہ کے دباؤ کے تحت افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع نہ دے ۔ یہ پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد و رفت پر پابندیاں لگائی جائیں پہلے مرحلے میں ان کو شہروں سے نکالا جائے اور ان کو گرفتار کیا جائے کیونکہ وہ غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں بعد میں ان کو دور دراز علاقوں سے نکالا جائے پاکستان میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین اس سرزمین پر معاشی وجوہات کی بناء پر موجود ہیں یہ صوبائی حکومت پر فرض ہے کہ ان پر نہ صرف نگاہ رکھی جائے بلکہ ان کی حرکات پر سخت قدغن لگائے ۔ پاکستان اور اس کو محفوظ بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت اپنے سیکورٹی افواج کو استعمال کرکے ملک میں قیام امن کو یقینی بنائے تاکہ غیر ملکی اس ملک میں کوئی تخریبی کارروئیاں نہ کر سکیں ۔