|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2015

حج کے دوران دو دردناک واقعات پیش آئے ۔ ان میں حرم شریف میں کرین کا حادثہ جس میں سو سے زائد لوگ شہید ہوئے اور اس کے بعد سانحہ منیٰ جس میں 800کے لگ بھگ حجاج شہید اور نو سو سے زائد زخمی ہوئے ۔ ان شہید ہونے والوں حجاج میں سب سے بڑی تعداد ایرانی حجاج کی تھی ۔ آخری اطلاعات آنے تک ان شہید ہونے والے ایرانی حجاج کی تعداد 140تھی جبکہ کئی ایک لا پتہ اور زخمی بھی ہوئے ۔ اس کے بعد مراکش کا نمبر آتا ہے ۔ پاکستان سے شہید ہونے والے حجاج کی تعداد سرکاری طورپر 18اور غیر سرکاری طورپر تصدیق شدہ شہداء کی تعداد 36ہے ۔ سعودی حکومت نے اس حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔ پاکستان میں حج کے دوران زبردست بے چینی دیکھی گئی اور حجاج کرام کے اہل خانہ اور رشتہ دار کئی دنوں تک پریشان رہے ان کو تصدیق شدہ اطلاعات نہ مل سکیں ۔ دوسری جانب وزارت مذہبی امور کے دفاتر بند رہے اور اطلاعات صرف وزارت خارجہ سے آتی رہیں ۔ وزارتی مذہبی امور کے کسی بھی ذمہ دار شخص یا اہلکار نے اپنے دفاتر کا رخ نہیں کیا ۔ اتنے بڑے واقعات کے بعد بھی عید کی چھٹی منائی گئی جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ حجاج کے رشتہ دار حیران اور پریشان رہے اور مذہبی امور کے افسران اور اہل کاروں کو اس کا احساس تک نہ ہوا ۔ عید سے ایک دن قبل اور باقی ماندہ تین دنوں تک وزارت مذہبی امور کے اعلیٰ ترین افسران اور ذمہ داران اتنے بڑے جان لیوا واقعے کے بعد بھی لا تعلق رہے ۔ ان کا طرز عمل اس طرح کا رہا جیسا کہ کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ۔ دوسری جانب مسلم ممالک کے میڈیا نے سعودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔ عرب میڈیا کے بعض اخبارات اور نیوز چینلز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ راستے بند کرنے کی وجہ سے اتنا بڑا حادثہ پیش آیا ان اخبارات نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر دفاع جو سعودی بادشاہ کے بیٹے ہیں ان کے کانوائے کو گزارنے کے لئے فوج اور سیکورٹی اہلکاروں نے راستہ بند کردیا اوربڑے ہجوم کا رخ دوسری جانب موڑ دیا جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور آٹھ سو سے زائد حجاج شہید اور نو سو سے زائد زخمی ہوئے ۔ عرب اور ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بیس لاکھ انسانوں کی مناسک حج کی ادائیگی کے دوران وی آئی پی افراد کی نقل و حمل یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اور ان علاقوں سے جہاں پر مناسک حج ادا کیے جارہے ہوں ۔ انسانیت کے خلاف جرم ہے ۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں کہ سعودی وزیر دفاع کا کانوائے اسی علاقے سے گزر رہا تھا تو اس حادثے کی ذمہ دار صرف اور صرف سعودی حکومت ہے ۔ اگر یہ بات غلط ہے تو اس بات کی بھر پور تحقیقات ہونی چائیے کہ کن وجوہات کی بناء پر اتنا بڑا حادثہ پیش آیا اور اسکے ذمہ دار کون لوگ ہیں ۔ سعودی عرب کا سیاسی مخالف ایران ابتداء سے یہ دعویٰ کرتا آرہا ہے کہ سعودی حکومت اتنے بڑے انتظامات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اس لئے اجتماعی طورپر مناسک حج کا بہتر انتظام کیا جائے ۔ اس پس منظر میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خیمنائی نے سعودی حکومت سے معافی کا مطالبہ کیا ہے اور یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اس حادثے کی ذمہ دار ہے ۔ چونکہ حرمین و شریفین سعودی مملکت میں ہیں اور یہ سعودی عرب حکومت کی ذم داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کے لئے بہترین انتظامات کرے اور ان کو بہتر سہولیات فراہم کرے ۔ یہ بات عام ہے کہ حجاج یا اللہ کے مہمان جب سعودی عرب پہنچتے ہیں تو ان کا واسطہ پہلے بد تمیز اور بد اخلاق سیکورٹی اہلکاروں سے پڑتا ہے جو دوسرے ممالک سے آنے والے حجاج اور عمرہ ادا کرنے کیلئے آنے والوں کے ساتھ نفرت انگیز طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ سعودی حکام اللہ کے مہمانوں کا استقبال انتہائی نفرت اور حقارت سے کرتے ہیں ۔ حجاج کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے کہ سیکورٹی اہلکار پاسپورٹ اور ویزا چیک کرنے میں گھنٹوں لگاتے ہیں اوران کا طرز عمل نفرت انگیز ہوتا ہے پہلے تو سعودی بادشاہت اپنے ان چہیتے ‘ جاہل اور نا اہل اہلکاروں کو قابو کرے اور ان کا طرز عمل بد لے تاکہ لوگ سعودی حکمرانوں سے نفرت نہ کریں ۔