ڈپٹی مئیر کوئٹہ پیڈ پارکنگ کی حمایت میں آگئے اور اس سلسلے میں مئیر صاحب نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ ڈپٹی مئیر کا یہ دعویٰ ہے کہ لوگ ہر چیز کی مخالفت کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عمل لوٹ مار کے ذمرے آتا ہے اور یہ اچھی چیز نہیں، پورے شہر کے مرکزی حصے میں راتوں رات پیڈ پارکنگ پر بغیر کسی اعلان کے عمل درآمد ہوگیا ۔ آناً فاناً ایک سیاسی جماعت کے کارکن اور حمایتی ٹھیکیدار بن کر سامنے آگئے ۔ انہوں نے سر عام غیر شائستگی کا مظاہرہ کیا اور عوام الناس سے کوئٹہ کے ہر گلی میں الجھ پڑے ۔ مرنے مارنے پر تیا رہوگئے ۔ عام آدمی بے بس ہے کیونکہ ایک پورا گینگ نام نہاد ٹھیکیدار کی دفاع کے لیے مسلح اور تیار نظر آیا ۔ غریب اور مجبورعوام ان کو خاموشی سے منہ مانگی رقم دے گیا ۔ صرف اپنی عزت کا خیال رکھا اور نیم خواندہ افراد سے الجھنا پسند نہیں کیا ۔ پوری دنیا میں پیڈ پارکنگ کے لئے مشین نصب ہیں ۔ کوئٹہ میں چونکہ قانون کی عمل داری نہیں ہے بلکہ حکمران خود قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس لئے پیڈ پارکنگ سے متعلق عوامی رائے کے مطابق قانون بنانے سے قبل شہرکو ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں اور حمایتیوں کے حوالے کردیا گیا، ان کی مرضی ہے کہ عوام الناس سے جس طرح کا چاہیں سلوک کریں ۔ ان کو مار پیٹ کرنے اور گالی گلوچ کرنے کی اجازت ہے کیونکہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ پولیس تو ویسے ہی قانون کی خلاف ورزی کرتاہے اور اس کی نشانی پارٹی کے رکن ہونے کے ثبوت کے ساتھ ساتھ پارٹی کا جھنڈا بھی نمائش کے لئے موجود ہے ۔ اگر مو جودہ نظام کو شریفانہ طریقے سے چلایا جاتا اور اس کو خدمت خلق سمجھ کر نافذ کرتے تو شاید لوگوں کو اس پر اعتراض نہ ہوتا، ساتھ ہی پیڈ پارکنگ کی رقم کم سے کم رکھی جاتی تو یہ قابل قبول ہوتا ۔ موٹر سائیکل اور گاڑی کے لئے بہت زیادہ رقم رکھی گئی ہے ، کس نے رکھی ہے کسی کو نہیں معلوم ۔ شاید مئیر صاحب اور اس کے رفقاء نے رکھی ہے اور ٹھیکیدار کے زیادہ سے زیادہ منافع کو پیش نظر رکھ کر یہ رقم نافذ کی گئی ہے حکمرانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ایک غریب موٹر سائیکل والا دن میں اپنے کام کے سلسلے میں چار جگہ پارکنگ کرے اور چار بار یہ فیس سیاسی کارکن کو ادا کرے ۔ یہ اس غریب شخص کے جیب اور وسائل پر ڈاکہ ہے ۔ یہ حکومت یا کارپوریشن کا قانونی حق نہیں ہے کہ وہ ایک متوسط طبقے کے شخص پر بوجھ ڈالے ۔ اس سے دن میں صرف ایک بار رقم لی جائے اور کم سے کم یا صرف ٹوکن کے طورپر لی جائے اور سارا دن اس کو پارکنگ کی اجازت ہو ۔ پہلے تو پیڈ پارکنگ مکمل طورپر ختم کی جائے صرف جہاں ضروری ہو وہاں پر صرف پانچ روپے دن بھر کے لئے پارکنگ کے لئے ہو ۔ اس سے زیادہ رقم حکومت ‘ کارپوریشن یا ٹھیکیدار وصول نہ کرے بلکہ جب تک کوئٹہ شہر میں مشین نصب نہ کی جائے اس وقت تک ٹھیکیدار اور پارٹی ورکر کو چائیے پیڈ پارکنگ کے نام پر پارٹی فنڈ جمع نہ کریں اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو اس بہانے روزگار دیں۔ پیڈ پارکنگ رقم کم سے کم ہونی چائیے جو ایک غریب آدمی خوشی خوشی ادا کرے ۔ رہی بات گاڑیوں کی چوری کی ‘ صوبائی خزانے سے چار ارب روپے صرف پولیس کے لئے ہیں ۔ پولیس کاکام ہے کہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے اور جرائم کا خاتمہ ان کے فرائض میں شامل ہے ۔ مگر بعض ٹھیکیداروں کے رسیدوں پر صاف اور واضح طورپر لکھا ہوا ہے کہ کسی گاڑی کی چوری کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں ۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی اس پر بحث کرے اور اس کی منظوری کے بعد پیڈ پارکنگ کا نظام اس وقت رائج کیا جائے جب اس کے لئے مشینیں نصب ہوجائیں ۔ ٹھیکیدار صاحب اپنے لئے نیا روزگار تلاش کریں ہم یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عوام الناس کے مفادات کے پیش نظر کوئٹہ کے شاہراہوں پر لوٹ مار بند کرائیں گے تاکہ آئے دن سڑکوں پر دھینگامشتی نہ ہو ۔
پیڈ پارکنگ یا لوٹ مار
وقتِ اشاعت : September 30 – 2015