کوئٹہ میٹرو پولٹین کارپوریشن نے مٹن مارکیٹ سیل کردی اور یہ ساتھ ہی اعلان کردیا ہے کہ اگلے چند روز میں اس بلڈنگ کو مسمار کیا جائے گا ۔ ابھی تک اخباری بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریشن یہاں پر پارکنگ کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اکھاڑہ بنانا چاہتی ہے تاکہ پروفیشنل احتجاج کرنے والوں کے لئے ہجوم ہمہ وقت فراہم اور موجود رہے اور کسی بھی وقت اس کو استعمال کرکے مخالفین کو بلیک میل کیا جائے اور شہر بھر میں احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ کیا جائے ۔ کوئٹہ شہر کے وسط اور خصوصاً کوئٹہ کے تجارتی مرکز کے درمیان اس قسم کے سیاسی اکھاڑے کی کوئی ضرورت نہیں جہاں پر غیر ذمہ دار افراد کسی بھی وقت انسانی جذبات کو غلط استعمال میں لائیں اور شہر بھر میں توڑ پھوڑ کریں ۔ دکانوں اور املاک کو نقصان پہنچائیں ۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے یہ ایک سنجیدہ مشن ہے اور اس میں ذمہ دار لوگ حصہ لیتے ہیں اور صرف اپنے عقائد بیان کرتے ہیں اور دوسروں کو محبت اور پیار سے اپنے ساتھ ملاتے ہیں ، حامی بناتے اور اس طرح سے وہ اپنا قافلہ بناتے ہیں اس لئے شہر کے وسط میں کوئی جلسہ گاہ نہیں ہونی چائیے سیاست پر عملاً یقین رکھنے والے لوگوں کو زیادہ بہتر مقام پر بلاتے ہیں اور سکون کے ساتھ اپنی تقاریر میں اپنی بات کہتے ہیں اور اپنے عقائد بیان کرتے ہیں حال ہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل نے شہر کے دوسرے سرے پر اپنا عظیم الشان جلسہ عام کیا جس میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور رہنماؤں کی باتوں کو سکون سے اور غور سے سنا ۔ یہ سب کچھ شہر سے دور ہوا اور پر امن ماحول میں ہوا ۔ مٹن مارکیٹ کو قطعاً جلسہ گاہ میں تبدیل نہیں ہونے دینا چائیے بلکہ یہ صرف اوپن اور کھلا میدان ہو جہاں پر لوگوں کو سانس لینے کا موقع ملنا چائیے ۔ غضب خدا کا کوئٹہ شہر کے تجارتی علاقوں میں نہ تو پارک ہے اور نہ کوئی کھیل کا میدان ‘ ہونا تو یہ چائیے کہ حکومت لوگوں سے زمین اور مکانات خریدے اور ان سب کو مسمار کرکے وہاں پر پارک اور کھیل کے میدان بنائے ۔ کوئٹہ شہر میں سیاستدانوں نے خصوصاً ان لوگوں نے جو ایک سیاسی مقام رکھتے ہیں انہوں نے قبضہ مافیا کا کردار اد اکیا ۔ سرکاری زمین ‘ سرکاری اراضی اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور ان سرکاری جائیداد کو ذاتی ملکیت میں شامل کیا ۔ پہلے تو ان سیاسی رہنماؤں اور عوام کے نام نہاد نمائندوں کے خلاف بھر پور کارروائی ہونی چائیے جنہوں نے سرکاری املاک پر قبضہ کیا ہے ، ان سے قبضہ چھڑا یا جائے اور سرکار کی ملکیت میں ان املاک کو دوبارہ واپس دیا جائے ۔ مٹن مارکیٹ کوئٹہ شہر میں ایک سونے کی چڑیا ہے اور ہر قبضہ گیر کی نگاہ اس پر ہے کہ مٹن مارکیٹ مسمار ہوگی تو شاید ان کو بھی لوٹ مار میں کچھ حصہ ملے گا۔ ہم ان الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عوامی مفاد کے پیش نظر اس کو ایک وسیع اور کشادہ پارک میں تبدیل کیا جائے کیونکہ حکومت نے مٹن مارکیٹ کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور عوام الناس سے ایک سروس چھین رہی ہے کہ وہ یہاں سے مناسب داموں گوشت‘ مچھلی خریدر ہے ہیں تو اس لئے اس پورے خطے کو عوامی خدمت کے لئے وقف کردیا جائے ایک بہت بڑا خوبصورت اور جاذب نظر پارک بنایا جائے ۔ رہی بات غیر ذمہ دار اور کم علم سیاسی شعبدہ بازوں ‘ نعرے بازوں کی ان کو شہر کے وسط میں مجمع لگانے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ وہ شہر کے وسط میں کاروبار زندگی کو معطل رکھیں اور لاکھوں انسانوں کو اذیت میں مبتلا کریں کہ چند افراد احتجاج کرنا چاہیں ‘ہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ احتجاج کے لئے ایک مخصوص جگہ مقرر کی جائے وہ بھی ایوب اسٹیڈیم کے اندر جہاں پر سیاسی جماعتیں اور ٹھگ حضرات اپنے مظاہرے وہاں کریں ۔ سڑکیں بند نہ کریں آمد و رفت میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور انسانوں کی معمولات زندگی میں خلل نہ ڈالیں ‘ جس کو شوق ہو تو ایوب اسٹیڈیم جا کر وہ اپنا مظاہرہ رکھیں اور اس کو وہاں منظم کریں ،شہر اور شہر کے لوگوں کو اذیت میں مبتلا نہ کریں۔
کوئٹہ کو سیاسی اکھاڑے کی ضرورت نہیں
وقتِ اشاعت : October 2 – 2015