وفاق پاکستان رضا کارانہ طورپر تشکیل دیا گیا تھا ۔حکومت پاکستان کا قیام ایسے عمل میں لایا گیا تھا کہ وفاقی اکائیوں ‘ بنگال ‘ بلوچستان ‘ سندھ ‘ پنجاب اور کے پی کے نے اپنے چند اور مختصر اختیارات وفاق کے حوالے کیے تھے وہ بھی رضا کارانہ طور پر، اس طرح سے وفاقی حکومت قائم ہوگئی تھی۔حکومت پاکستان کوئی ریاست یا صوبہ نہیں تھا ، اس کی اپنی کوئی سرزمین نہیں تھی تو بنیادی طورپر پاکستان میں وفاقی نظام کو تشکیل دیا گیا اس میں ہر صوبے کی اپنی اپنی انتظامیہ، اپنی مقننہ ‘ اپنی عدلیہ تھی اور ا ن کو پورے اختیارات حاصل تھے کہ اپنے صوبوں کے لئے قانون سازی کریں ‘ قانونی ادارے تشکیل دیں وفاق کی اصل ذمہ داری صرف دفاع پاکستان اور بیرونی تعلقات یا خارجہ پالیسی جو تمام صوبائی اکائیوں کی نمائندگی کرنے کیلئے تھی ۔ ضرورت پڑنے پر ریلوے ‘ مواصلات ‘ کرنسی ‘ کچھ ٹیکس لگانے کے اختیار ات بھی تقویض کیے گئے تاکہ وفاق پاکستان مشکلات کا شکار نہ ہو اور وفاقی اکائیوں سے اس کو بھیک نہ مانگنی پڑے اس لئے وفاق کو ٹیکس لگانے کے اختیارات دئیے گئے ۔ قیام پاکستان کے ایک آدھ سال بعد ملک پر نوکر شاہی کا قبضہ ہوگیا ۔ ملک غلام محمد کے بعد پور املک نوکر شاہی کا غلام بن گیا۔ ملک غلام محمد کے گورنر جنرل بننے کے بعد پاکستان میں نہ کوئی آئین رہا اور نہ قانون اور نہ ہی وفاقی نظام ۔ نوکر شاہی نے تمام صوبوں کو اپنے مفتوحہ علاقے تصور کیے اور جبر کی حکمرانی کو نافذ کیا ۔ اس دوران ون یونٹ بنایا گیا اور توڑا گیا تاوقتیکہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا ۔ وجہ یہ تھی کہ بنگالی پاکستان کے اندر ہر شعبہ ہائے زندگی میں 56فیصد نمائندگی کا مطالبہ کررہے تھے اس میں افسر شاہی ‘ فوج اور وفاقی بجٹ اور دولت اور اختیارات کی تقسیم شامل تھی اسی وجہ سے بنگال کو الگ کردیا گیا کیونکہ وہ خود الگ نہیں ہونا چاہتے تھے اوران کا مطالبہ پاکستان کے اندر 56فیصد نمائندگی ‘ بجٹ ‘ دولت کی تقسیم ‘ افسر شاہی اور فوج سب شامل تھے جو ہمارے حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔ چنانچہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اصل آئین بنا جسے عوامی نمائندوں نے بنایااور جس کو بلوچ اکثریتی نمائندوں نے ویٹو کردیا ۔ صرف میر غوث بخش بزنجو نے اس کے حق میں روٹ دیا ۔ دوسرے بلوچ رہنماؤں نے ووٹ نہیں دیا ان کا مطالبہ مکمل صوبائی خودمختاری تھا موجودہ صوبائی خودمختاری ان کو قابل قبول نہیں تھا ۔ بہر حال اختیارات وفاق اور صوبوں یا وفاقی اکائیوں میں تقسیم ہوگئے۔ اب آئے دن وفاقی حکومت اور وفاقی حکمران مختلف حیلے بہانوں سے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی کررہی ہے ۔ وفاق کے اکثر ادارے صوبوں میں غیر قانونی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور مختلف افراد کے خلاف کارروائی کررہے ہیں ان میں دو محکمے سرفہرست ہیں پہلا نیب اور دوسرا ایف آئی اے ۔ان دونوں اداروں کی صوبوں کوضرورت نہیں ہے ، وفاقی اکائیوں کے پاس اپنی پولیس موجود ہے لہذا پولیس کے اختیارات وفاق کے دیگر اداروں کو دینا آئین کے خلاف ہے اور یہ منتخب صوبائی حکومتوں کی تذلیل ہے کہ خودمختار صوبوں میں نیب اور ایف آئی اے کارروائی کرے ۔ ان دونوں اداروں کو فوراً بند کردیناچائیے اگر ان کی ضرورت ہے تو صرف وفاق کے زیر انتظام علاقے یعنی فاٹا اوراسلام آباد میں۔ صوبوں کی اپنی پولیس ہے ، اپنا قانون ہے ، اپنی مقننہ ہے اور قانون ساز ادارہ ہے ۔ اس لئے نیب اور ایف آئی اے کا کوئی کردارنہیں ہے البتہ یہ ادارے سرحدی علاقوں میں ویزا کنٹرول کا کام سر انجام دے سکتی ہے ۔ صوبوں کی شکایات جائز ہیں کہ ان کی خودمختاری میں وفاق اور وفاقی ادارے مداخلت کررہے ہیں ۔ وفاقی وزارت داخلہ نے ایک اعلامیہ کے تحت صوبائی خودمختاری کو ختم کردیا اور ایف آئی اے کو آئین اور قانون کے خلاف اختیارات دے دئیے کہ صوبائی پولیس کے بدلے وفاقی پولیس کارروائی کرے۔ یہ سب کام پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ، وفاق صوبائی حقوق اور اختیارات پر ڈاکہ ڈالنا بند کر دے ورنہ اس پر وفاق کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
صوبائی خودمختاری پر ڈاکے
وقتِ اشاعت : October 7 – 2015