کوئٹہ:کوئٹہ میں کانگو وائرس کا ایک اور مریض دم توڑ گیا، ایک ہفتے کے دوران اس خطرناک بیماری سے جاں بحق افراد کی تعداد تین ہوگئی جبکہ دو خواتین سمیت نو افراد کوئٹہ کے سرکاری اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ محکمہ صحت بلوچستان کے حکام کے مطابق بلوچستان میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے کانگو وائرس نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے اور کوئٹہ کے فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ اسپتال (ٹی بی سینیٹوریم) میں یکم اکتوبر سے اب تک کانگو وائرس کے شبہ میں چودہ افراد کو لایا گیا جہاں پیر کی شب کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس کا رہائشی ستائیس سالہ حیات اللہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ اسپتال کے وبائی امراض کیلئے مختص آئسولیشن وارڈ کے انچارج ڈاکٹر نصیر محمد نے بتایا کہ حیات اللہ کو دو اکتوبر کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانور ذبح کرتے اور کھال اتارتے وقت احتیاط نہ برتنے کی وجہ سے کانگو کا مرض تیزی سے پھیلا اور ایک ہفتے کے دوران چودہ متاثرہ افراد کو کانگو کے شبہ میں اسپتال لایا گیا ۔بیشتر مریض قصائی یا پھر جانور ذبح اور کھال اتارنے والے افراد تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ یکم اکتوبر کو ایک، دو اکتوبر کو تین، تین اکتوبر کو چار، چار اکتوبر کو تین ، پانچ اکتوبر کو دو اور چھ اکتوبر کو ایک مریض اسپتال لایا گیا ۔متاثرہ مریضوں میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پشتون باغ کی رہائشی52سالہ خاتون مریم بی بی ، مشرقی بائی پاس کا 27سالہ حیات اللہ، بشیر چوک کا گل نظر، موسیٰ کالونی کا32سالہ خان محمد، کچلاک کا16سالہ عبدالواجد، ریلوے کالونی کا 34سالہ شفیق اعوان ، نواں کلی کا 32سالہ امان اللہ جبکہ مستونگ کے رہائشی تاج محمد، قلعہ عبداللہ چمن کا بیس سالہ محمد قاسم، پشین کا میر عالم، ژوب کا پچیس سالہ محمد ایاز شامل ہیں۔ تین متاثرہ مریضوں 52سالہ نثار احمد ، 35سالہ شائستہ ، 45سالہ محمد نور کو افغانستان سے لایا گیا۔متاثرہ مریضوں میں کوئٹہ کے رہائشی حیات اللہ کی موت پانچ اکتوبر یعنی پیر کی شب ، شفیق اعوان کی موت 4اکتوبر جبکہ افغانستان کے رہائشی نثار احمد کی موت تین اکتوبر کو ہوئی۔ ڈاکٹر نصیر محمد نے بتایا کہ دومتاثرہ مریض کی حالت بہتر ہوگئی تھی جن میں سے ایک کو فارغ جبکہ دوسرے مریض کو دوسرے اسپتال منتقل کردیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ اسپتال میں رواں سال اب تک 86افراد کو کانگو وائرس کے شبہ میں لایا گیا جن میں سے45افراد میں اس مرض کی تصدیق ہوئی اور رواں سال اب تک 13متاثرہ مریضوں کی موت ہوچکی ہے جبکہ 41مریضوں میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوئی ان 41میں سے بھی 2مریضوں کی موت واقع ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اپریل میں ایک، مئی اور جون میں بارہ بارہ، جولائی میں پندرہ، اگست اور ستمبر میں سولہ سولہ مریضوں کو اسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹر نصیر محمد نے مزید بتایا کہ اسپتال میں عالمی ادارہ صحت کی مدد سے کانگو وائر س کے شبہ میں مبتلا مریضوں کے مفت ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جبکہ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ صوبائی سیکریٹری صحت نور الحق بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے عید الاضحی سے قبل شہریوں میں کانگو وائر سے متعلق آگاہی کیلئے مہم بھی چلائی ، اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے گئے لیکن بعض شہریوں کی جانب سے غفلت کی گئی جس کے باعث وہ اس مرض کا شکار ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ صحت نے سرکاری اسپتال میں متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں ۔ماہرین صحت کے مطابق کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت اور معالجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکسTick (جراثیم یا ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ماہر صحت ڈاکٹر نصیب اللہ کے مطابق بیمار جانوروں کی کھال میں موجود کانگو وائرس متاثرہ جانور کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والے افراد میں آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ ایسے جانوروں سے دور رہیں یا ان کی اسکریننگ کرائی جائے۔کانگو وائرس کے علامات بتائے ہوئے انہوں نے کہا ’’ کانگو سے متاثرہ شخص کو پہلے بخار ہوتا ہے اور پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم کے سفید خلیوں پر مشتمل جو مدافعتی نظام ہے وائرس اس پر حملہ کر دیتا ہے اور ہڈیوں کا جو گودا ہے وہ سپریس ہو جاتا ہے۔ منہ، ناک اور جسم کے دیگر حساس حصوں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اس مرض کے ابتدائی علامات ہیں‘‘۔خیال رہے کہ بلوچستان میں کانگو وائرس کی تشخیص کا واحد مرکز کوئٹہ میں قائم ہے۔ طبی ماہرین کے بقول عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے لیے اندرون صوبہ اور افغانستان سے آنے والے مال مویشیوں کی بہتات اور اسکریننگ کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث کانگو کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔