بلوچستان تعلیمی میدان میں پسماندہ ہے اور سماج میں پسماندگی کی ایک بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی ہے ۔ جب بلوچستان میں پہلی جمہوری اور منتخب حکومت قائم ہوئی تو بقیہ پاکستان اس پر آگ بگولہ تھا ۔ خصوصاً مقتدرہ کو اس حکومت پر بہت زیادہ غصہ تھا ۔ بلوچستان حکومت کا یہ مطالبہ تھا کہ پنجاب حکومت کے اضافی ملازمین جو بلوچستان میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کو واپس بلائے وگرنہ ان کی تنخواہیں حکومت پنجاب ادا کرے ۔ وجہ بلوچستان میں زبردست بے روزگاری اور بلوچوں کے ساتھ ریاست کا امتیازی سلوک تھا ۔ بہر حال گورنر پنجاب جو اس وقت پنجاب کے مقتدر اعلیٰ تھے نے حکم دیا کہ 31دسمبر تک پنجاب حکومت کے تمام ملازمین واپس آجائیں ۔ اس کا مقصد حکومت بلوچستان کو نقصان پہنچانا تھا ۔ ان ملازمین کی اکثریت کا تعلق پولیس اور شعبہ تعلیم سے تھا ۔ شعبہ تعلیم سے بڑی تعداد میں اساتذہ واپس چلے گئے خصوصاً گورنر پنجاب کی دھمکی کے بعد حالانکہ حکومت بلوچستان نے ان کی نوکری کو باقاعدہ بنانے کی پیش کش کی تھی اس کے بعد صوبے میں بڑی تعداد میں کم تعلیم یافتہ اساتذہ مجبوراً بھرتی کیے گئے بعض اسکولوں میں مڈل پاس اساتذہ کو تعینات کیا گیا تاہم بہت کم تعداد بھوت اساتذہ اور بھوت اسکولوں کی تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ حکومت کو پورے سماج اور سماجی اداروں کی زبردست حمایت حاصل تھی ۔ چھوٹے سے چھوٹے گاؤں کا فرد صوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ کو ذاتی طورپر جانتا تھا اوران تک شکایت براہ راست پہنچتی تھی جس کی وجہ سے بھوت اساتذہ اور بھوت اسکول نہ ہونے کے برابر تھے ۔ یہ ساری خرابی منتخب عوامی حکومت کی برطرفی کے بعد شروع ہوئی جو اب انتہا کو پہنچ گئی جہاں پر صرف اور صرف سرجری سے مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے ۔ گوکہ موجودہ وزیراعلیٰ مقابلتاً سابقہ وزرائے اعلیٰ سے زیادہ مقبول ہیں ۔ لوگ ذاتی طورپر ان کو جانتے ہیں اور وہ انہی اطلاعات کی بناء پر انکشافات کرکے افسر شاہی کوحیران اور پریشان کرتے رہتے ہیں مگر خرابی بہت زیادہ ہے ۔ مریض کی حالت نازک تر ہوتی جارہی ہے اس لئے وزیراعلیٰ کے اعلانات ‘ بیانات سے بے ایمان اورکرپٹ اساتذہ اور افسران پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ شاید یہ مثل ثابت ہوتی ہے کہ ’’ رشوت لے کر گرفتار ہوا اور رشوت دے کر رہا ہوگیا ‘‘ شاید یہ سوچ زیادہ مقبول ہوگئی ہے ۔ افسران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ رشوت دے کر رہا ہوجائیں گے یا دوبارہ بحال ہوجائیں گے۔ وزیراعلیٰ اپنا وقت پورا کرکے چلے جائیں گے نوکر شاہی کی بادشاہت قائم و دائم رہے گی اس پر فرق آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ چنانچہ اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف سرجری ہے ۔ حکومت سخت سے سخت اقدامات اٹھائے اورنہ صرف بھوت اساتذہ کو فوراً بر طرف کیا جائے بلکہ ان کو گرفتار بھی کیا جائے اور ان سے گزشتہ تنخواہوں کی مکمل رقم دوبارہ وصول کی جائے، ہوسکے تو ان کو جیل کی بھی سزائیں دی جائیں ۔ یہی طرز عمل بھوت افسران اور اہلکاروں کا ہونا چائیے جو ڈیوٹی سے غائب رہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اساتذہ اور تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے تمام سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں پر فوراً پابندی لگائی جائے ان کے اثاثے ضبط کیے جائیں اور دفاتر سیل کردئیے جائیں ۔ سرکاری ملازمین کو اجتماعی سودا کاری کا کوئی حق نہیں ہے ۔ وہ حکومت کے ملازم ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کو عوام کی خدمت کرنی ہے ، وہ احتجاج نہیں کر سکتے نہ بلیک میلنگ کرسکتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی دیں اور گھر جائیں ۔ ریاست کے ملازمین 24گھنٹے ریاست کے ملازم ہوتے ہیں اور ان کو کسی بھی وقت ڈیوٹی پر طلب کیا جا سکتا ہے۔ لہذا وہ دوسری ملازمت نہیں کر سکتے نہ ہی جائے ملامت سے بغیر اجازت کہیں جا سکتے ہیں ۔
تعلیمی پسماندگی
وقتِ اشاعت : October 9 – 2015