ایرانی جنرل شام میں مارا گیا ‘ روس نے دور مار میزائل حملوں میں 300دہشت گردوں کو شام میں ہلاک کردیا ۔ عراق‘ شام ‘ یمن میں شدید جنگیں جاری ہیں ۔ امن اور سلامتی کا دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں نہ ہی قیام امن کے لئے کوششیں نظر آرہی ہیں ۔ اسرائیلی قابض افواج طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے عرب اور فلسطینی احتجاج کو قوت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ صحراسینا میں مصری افواج جنگجوؤں کے خلاف طاقت استعمال کررہی ہیں مگر سب سے زیادہ خطر ناک صورت حال شام میں ہے جہاں پر روز بروز کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ روس نے اپنی پوری قوت صدر اسد کو بچانے کے لئے جھونک دی ہے ، پہلے تو روس نے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے اور حال ہی میں دور مار میزائل سے شام کے اڈوں پر حملے کیے جو حکومت مخالف گروہ کے قبضے میں ہیں ۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ حملے داعش پر نہیں اعتدال پسند مخالفین کے خلاف کئے جارہے ہیں جن کو بعض عرب ممالک اور امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ دوسرے الفاظ میں شام کے صدر کو ان حملوں کے بعد زبردست سہارا مل گیا ہے بلکہ اب یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ شامی افواج ان علاقوں کو واپس لینے کی کوشش کررہی ہے جو مخالفین کے قبضے میں ہیں اس کے لئے روس کی فضائی قوت ‘ ایران کے مشورے اور شام کی افواج ان علاقوں کی طرف پیش قدمی کررہی ہیں ۔ دوسری جانب امریکا نے شام کے باغیوں کی تربیت بند کردی ہے اور اپنی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہے۔ ادھر فرانس ‘ آسٹریلیا ‘ ترکی اور دوسرے ممالک نے شام پر بمباری میں اضافہ کردیا ہے کئی بار روس اور ترکی کے طیارے آمنے سامنے آگئے ۔ ترکی کو یہ شکایت ہے کہ روسی جنگی جہازوں نے ترکی کے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ادھر ناٹو اتحاد نے ترکی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ ناٹو اپنے پٹیریاٹ میزائل کا نظام ترکی میں نصب کرے گا تاکہ ترکی کی دفاع کو زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ ترکی اس خطے میں صف اول کا ملک ہے جو شام کے صدر اسد کی فوری معزولی کا مطالبہ کررہا ہے ۔ بلکہ روس کو یہ تک کہہ دیا ہے کہ اس کے شام سے متعلق پالیسی سے ترکی اور روس کے درمیان دوستی میں فرق آسکتا ہے ۔ دنیا کے تقریباً ساٹھ سے زائد ممالک شام کے خلاف اتحاد میں شریک ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ شام کے صدر اسد کو معزول کیا جائے تاکہ خطے میں امن بحال ہوجائے ۔ ابھی تک شام کی جنگ میں دو لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور بیس لاکھ سے لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے خانہ جنگی جاری ہے اور پورے خطے میں بیرونی مداخلت جاری ہے ۔ دوسری طرف شام کی امداد کے لئے ایران اور روس پیش پیش ہیں ۔ روسی فیصلے کے بعد خطے میں کشیدگی میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایران کی زمینی فوج شام کی خانہ جنگی میں شامی افواج کی مدد کررہی ہے مگر ایران ان الزامات کو رد کرتا ہے ۔ ایران کا کہنا ہے کہ ایرانی ماہرین کا کردار صرف مشوروں تک موجود ہے اور اسکی افواج جنگ میں حصہ نہیں لے رہیں ہیں ۔ دوسری جانب دنیا بھر سے اسلامی شدت پسند شام پہنچ کر جنگ میں حصہ لے رہے ہیں ۔ پہلے وہ ترکی آتے ہیں اور بعد میں شام روانہ ہوجاتے ہیں ۔ روس کی مداخلت کے بعد حالات میں زیادہ کشیدگی آئی ہے خطرہ یہ رہے گا کہ روس اور امریکا کے اتحادیوں کے درمیان کبھی بھی کوئی بڑا تصادم ہوسکتا ہے ۔ بعض امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ روس شام کی جنگ میں صرف اس لئے شریک ہے کہ روس کو ایک بین الاقوامی قوت تسلیم کیاجائے ۔سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روس کی یہ پہلی کوشش ہے کہ وہ یو کرائن میں کامیابی کے بعد شام میں بھی اپنی حیثیت منوائے، اس لیے اس نے شام کا رخ کیا ہے اور ایران کی پشت پر کھڑا ہے ۔
مغربی ایشیاء کی خطر ناک صورت حال
وقتِ اشاعت : October 11 – 2015