لاہور کے ضمنی انتخابات نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کردی کہ سیاست اور انتخابی سیاست عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے صرف ایک ضمنی انتخاب میں دونوں جانب سے کروڑوں خرچ کیے گئے، دولت کی ریل پیل زبردست طریقے سے نظر آئی ۔ ہر طرف گاڑیاں‘ بینرز‘ جھنڈے ‘ تصاویر ‘ جلسے اور جلوس ‘ آج کل صرف ایک کارنر میٹنگ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن نے صرف پندرہ لاکھ روپے اخراجات کی حد رکھی ہے مگر یہاں ہر روز بیس لاکھ سے زائد خرچ ہورہے تھے ۔ امیدوار حضرات یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ان کے حامیوں نے یہ اخراجات کیے ہیں اس نے خود نہیں کیے ہیں حالانکہ پاکستان کے انتخابی قوانین میں واضح ہے کہ مجموعی طورپر پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوں گے چاہے امیدوار کرے یا اس کی پارٹی کے حمایتی ‘ پندرہ لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کرنا خلاف قانون ہے اگر الیکشن کمیشن آزاد ہے اور حکومت کے تابع نہیں تو وہ نئے منتخب شدہ رکن قومی اسمبلی کو سزا دے اور اس پر انتخابات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی لگائی جائے ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد ہے اور امیدواروں نے کروڑوں خرچ کیے ہیں بلکہ پندرہ کروڑ سے زائد اس لئے دونوں امیدواروں کو نا اہل قرار دیا جائے ۔الیکشن کے دوران اس قسم کی کارروائی مشکل تھی جس سے جمہوری عمل میں رخنہ پڑ سکتا تھا مگر انتخابات کے بعد کارروائی ضرور ہونی چائیے اور اس کے لئے سخت سزا ہونی چائیے ۔آخر امیدوار قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی تک پہنچنے کے لئے مر مٹنے کو تیار کیوں ہوتے ہیں پنجاب میں عام طورپر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی کے رکن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ارب پتی بننے کا لائسنس مل گیا ہے اب آپ کو ارب پتی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا بلکہ حکومت اور حکومتی ادارے سب مل کر یہ کوشش کریں گے کہ وہ ایم این اے صاحب جلد سے جلد ارب پتی بن جائیں ۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ سیاست اور خصوصاً انتخابی سیاست دولت مندوں کا کھیل ہے اس کا عام آدمی یا کسی متوسط گھرانے سے کوئی تعلق نہیں یہ مفاد پرستی کی نشاندہی کرتا ہے ساہوکار لوگ صرف اپنے مفادات کی خاطر سیاست کرتے ہیں پہلے تو یہ ہے کہ اسمبلی کے اراکین کے ترقیاتی فنڈ روک دئیے جائیں ان کا کام صرف اور صرف قانون سازی ہے، حکومت کا کام منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام کرنا ہے ۔ اراکین صرف ان میں مشورہ دے سکتے ہیں اس عمل کو اپنے قبضہ میں نہیں لے سکتے ۔ اسمبلی کے اراکین کو سالانہ کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈ دئیے جارہے ہیں اس سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈ اس کے صوابدیدی اخراجات کے لئے ہیں ۔ اس لئے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرنے کو تیار رہتے ہیں اور اس سے اربوں روپے کماتے ہیں ان کا ریاستی معاملات میں عمل دخل بے حد بڑھ جاتا ہے جس کو بعض عناصر غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنی دولت اور جائیدادمیں بے پناہ اضافہ کا سبب بناتے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اس کو سیاست نہیں سمجھتے بلکہ اس کو تجارت سمجھتے ہیں دوسرے الفاظ میں تاجروں کا سب سے بڑا ٹولہ اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے اور صرف اپنے یا گروہی مفادات کی نگرانی کرتا رہتا ہے ان کا عوامی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب تک سیاست اور انتخابی سیاست میں دولت کی ریل پیل ہوگی سیاست پر مفاد پرست گروہوں کا قبضہ رہے گا اور عوامی مفادات کو نظر انداز کیا جا تا رہے گا لہذا آئندہ کے انتخابی اصلاحات میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس میں دولت کی ریل پیل یا سیاست میں ساہو کاروں کی سرمایہ کاری نہ ہو بلکہ اس پر پابندی ہو اور رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اس کو کسی بھی بہانے کوئی فنڈ نہ دیا جائے تاکہ تاجروں کو سیاست سے بے دخل کیاجا سکے۔ اگر انتخابی اصلاحات دور رس نہیں ہوئے تو سیاست کو تجارت سمجھ کر اس میں سرمایہ کاری کا عمل جاری رہے گا جو ملک اور قوم کی تباہی اور بربادی کا سبب بن سکتا ہے ۔
الیکشن کمیشن کہاں ہے؟
وقتِ اشاعت : October 13 – 2015