|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2015

گزشتہ دنوں امریکی وزارت خارجہ نے ایک یادداشت مختلف ممالک کے صنعتی اور تجارتی اداروں کو لکھی جس میں یہ یاد دہانی کرائی گئی کہ ایران وہ تمام پابندیاں قائم ہیں ہیں لہذا وہ حکومت ایران یا ایران کے تجارتی اور صنعتی اداروں سے معاہدات کرنے سے گریز کریں ورنہ وہ بھی امریکی پابندیوں کے زد میں آسکتے ہیں اس یاددہانی کے بعد زیادہ بین الاقوامی تجارتی اورصنعتی ادارے امریکی پابندیوں کے خوف سے ایران اور اس کے تجارتی اداروں سے تجارتی معاہدوں سے باز رہیں گے۔ امریکا کی اس تنبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے تجارتی بہت سارے معاہدے اس کی زد میں آسکتے ہیں خصوصاً ایران ‘ پاکستان گیس پائپ جس کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیاگیا ہے اب وہ زیادہ خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ اندازہ ہے کہ چینی کمپنی سوچ سمجھ کر ایران ‘ پاکستان گیس پائپ لائن پر سرمایہ کاری کرے گی یا اس کی تعمیر میں حصہ لے گی اس کے علاوہ حکومت پاکستان کا ارادہ ہے کہ وہ دو سے تین میگا واٹ بجلی ایران سے خریدنے کا خواہشمند ہے اب یہ بھی معاہدہ مشکلات کا شکار نظر آتا ہے ۔ پاکستانی حکومت امریکی پابندیوں کے خوف سے ان تمام منصوبوں پر عمل درآمد میں تاخیر کر سکتا ہے۔تاہم یہ ممکن نہیں ہے کہ ان معاہدوں کو منسوخ کرسکتا ہے دوسرے الفاظ میں پاکستان میں توانائی کا بحران پوری شدت کے ساتھ جاری رہے گا اس میں ریلیف ملنے کے آثار کم سے کم ہے ۔ سب سے پہلے حکومت پاکستان ایران سے بجلی کی خریداری موخر کرے گا وجہ یہ ہے کہ اس منصوبہ کو اولیت حاصل نہیں ہے اس سے زیادہ فائدہ بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کو پہنچے گا جس کو حکومت پاکستان نے کبھی اولیت نہیں دی چنانچہ بجلی کا معاہدہ موخر ہوجاتا ہے گو وفاقی حکومت یا دوسرے صوبائی حکومتوں کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی ۔ بلکہ بلوچ عوام کا وفاقی حکومت پر دباؤ کم ہوگا کہ ایران سے بجلی خریدی جائے ۔ گزشتہ بیس سالں سے ایران کے پاس اضافی بجلی موجود ہے اور ایران پڑوس کے آٹھ ممالک کو بجلی فروخت کرہا ہے اور اس میں مکران کے ستر میگا واٹ درآمد شدہ بجلی بھی شامل ہے ۔ ایران 74ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور اضافی بجلی برآمد کرتا ہے اور حال ہی میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو بھی بجلی کی برآمد کی اجازت دے دی ہے تاہم گیس پائپ لائن بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس کے تاخیر سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ ادھر ایران کی قیادت نے امریکا کے ساتھ ہر طرح کے مذاکرات پرپابندیاں لگای دی ہیں ۔ ایران کے وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں یہ اشارے دئیے تھے کہ ایران امریکا سے شام کے مسئلے پر بات چیت کرنے کو تیار ہے ۔ ایرانی صدر اسد کا حامی ہے اور امریکا مخالف۔ اس لئے دونوں ممالک کے رائے مختلف ہیں ۔ بعض ایرانی رہنماؤں کا خیال ہے کہ امریکا سے بات چیت کے ذریعے امریکا کا ایران پر اثر ورسوخ بڑھ جاتا ہے اس لئے رہبر اسلامی ایران نے امریکا کے ساتھ سوائے جوہری معاہدے کے ہر طرح کے مذاکرات پر پابندی لگا دی ہے ۔ اب ایران کا کوئی رہنما یا افسر امریکا سے کسی بھی مسئلہ پر بات چیت نہیں کرے گا۔ رہبر اسلامی نے گزشتہ دنوں یہ انکشاف کیا کہ ’’ دشمن‘‘ ایرانی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے ۔اس نے ’’ ملائم انداز‘‘ میں جنگ چیڑھ رکھی ہے ۔جس سے لوگ ہوشیار ہیں ۔ ہفتوں کی ایرانی کارروائیوں کے بعد امریکا نے جوابی کارروئای کردی اور دنیا بھر کے تجارتی اور صنعتی اداروں کو انتباہ کیا ہے کہ ایرنا پر تمام پابندیاں بر قرارہیں ’ جوہعی معاہدے کے بعد ایران میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ ایران پر سے تمام اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اس تاثر کو لے کر بعض بڑے بڑے صنعتی اورتجارتی ادارے ایران کا رخ کرنے لگے اور ایران میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے لگے ۔ ایران نے یہ امید ظہار کی کہ آئندہ سال دو کروڑ سیاح ایران آئیں گے۔ ہوائی سر کو زیادہ وسعت دینے کے لئے ایران 500بڑے جیٹ مسافر بردار طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ایران کی حکومت کو یہ توقع تھی کہ ایران کی تیل اور گیس کی ترقی پر 500ارب ڈالر سرمایہ کاری کی توقع ہے ۔ اب ان تمام باتوں کا کیابنے گا۔ یہ امر بھی یہاں دل چسپی کا باعث ہوگا کہ ایران ‘ جاپان اور جنوبی کوریا بڑے پیمانے پر ساحل مکران اور خصوصاً چاہ بہار اور اس کے معاشی ترقی کے منصوبوں پر سو ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کررہے ہیں ۔ جرمنی کاروں کا کارخانہ لگا رہا ہے ایران کھاد کا کارخانہ ‘ جاپان اسٹیل ملز جس کی پیداوار تیس لاکھ ٹن اسٹیل سالانہ ہوگی ۔ شاید امریکی پابندیوں کا اطلاق ساحل مکران (ایران ) کے منصوبوں پر نہیں ہوگا۔