پاکستان بھر میں توانائی کا بحران اپنے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ حکمران ہیں کہ اس کی شدت اور تلخی کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی شدت کو کم سے کم بتانے کی کوشش کرتے ہیں حکمران اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں 18سے 20گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ بلوچستان کی بجلی کی ضروریات 1600میگاواٹس ہیں اور اس کو صرف چھ سو میگا واٹس بجلی فراہم کی جارہی ہے یہ اعلیٰ ترین افسران نے ہی انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کی پاور ٹرانسمیشن لائن چھ سو میگا واٹ سے زیادہ کا لوڈنہیں اٹھا سکتی ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بلوچستان کو کبھی بھی پوری بجلی نہیں مل سکے گی اگرچہ اس کی پیداوار میں اضافہ ہو بھی جائے ۔ لہذا بلوچستان کے عوام کی اب یہ دلچسپی نہیں ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو بلکہ عوام الناس کی دلچسپی اس بات میں ہوگی کہ حکومت کب سرمایہ کاری کرے گی اور پاور ٹرانسمیشن لائن کی استطاعت بڑھائے گی کہ ان کو بجلی سارا سال اور چوبیس گھنٹے مل سکے ۔یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ بجلی پورے سال اور 24گھنٹے لوگوں کو حاصل ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ مکران ‘ خاران ‘ چاغی ، نوشکی کے علاوہ بلوچستان کے تمام دور دراز علاقوں کو قومی گرڈ سے منسلک کیا جائے تاکہ بجلی کی ترسیل ان دور دراز علاقوں میں یقینی ہو ۔ مکران کے بعض علاقوں ‘ چاغی اور خاران میں بجلی مقامی بجلی گھروں سے سپلائی کی جاتی ہے جو 24گھنٹوں میں صرف چھ سے آٹھ گھنٹے ہوتی ہے ۔ یہ ان علاقوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے کہ ان کو بجلی کی سہولت سے محروم رکھا جائے ۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں حکومت بجلی کی ترسیل کے لئے ایک مناسب بنیادی ڈھانچہ تعمیر نہ کر سکی ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آج بھی کوئی ایسا حکومتی منصوبہ ہے کہ پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جائے اور پورے بلوچستان کو بجلی فراہم کی جائے اس معاملے پر کیسکو کے اعلیٰ ترین افسران ‘ وفاقی اور صوبائی حکمران ابھی تک خاموش ہیں ۔ اگر ایسا منصوبہ حکومت کے پاس ہوتا تو وہ چیخ چیخ کر اس کا اعلان کرتے اور اپنی ذاتی مشہوری ضرور کرتے ۔ حکومت پاکستان ایران سے بجلی خریدنے کو تیار نہیں، صرف سیاسی پروپیگنڈا کے لئے درجنوں بار ایران کے ساتھ یادداشت کے معاہدوں پر ضرور دستخط کیے جاچکے ہیں ۔ حکومت نے جان بوجھ کر زاہدان ‘ کوئٹہ پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر نہیں کی تاکہ وہ ایران سے بجلی نہ خریدے کیونکہ اس سے صرف بلوچستان اور اس کے عوام کا فائدہ ہے وفاقی حکمرانوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر پنجاب ایران کا ہمسایہ ہوتا تو یہ پاور ٹرانسمیشن لائن ہفتوں میں تیار ہوتی ۔ چونکہ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ نظر انداز صوبہ ہے اور وفاق میں اس کی کوئی شنوائی نہیں ہے اس لئے اس کو بجلی نہیں ملے گی ۔ افسوس کا مقام ہے کہ وفاقی پارلیمان میں بلوچستان کے نمائندے صرف ذاتی مفادات کی نگرانی کرتے آرہے ہیں وہ بلوچستان کے مجموعی معاملات میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ہم نے کبھی نہیں سنا کہ وفاق کے بجٹ پر بحث کے دوران ہمارے نمائندوں نے بلوچستان کے اجتماعی مسائل کا تذکر ہ کیا یا اس بات پر احتجاج کیا کہ گزشتہ سالوں ترقی کے لئے جتنی رقم رکھی گئی تھی وہ خرچ کیوں نہیں ہوئی ۔ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کا مطالبہ تو ہم نے اپنے نمائندوں کی زبان سے کبھی سنا ہی نہیں ۔ کابینہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ توانائی کے تمام منصوبوں پر زور و شور سے عمل ہوگا اور ملک میں 2018تک اضافی بجلی پیدا کی جائے گی یہ بڑی خوش آئند بات ہوگی مگر حکومت کو چائیے کہ بلوچستان میں اگلے چند سالوں میں پاور ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کرے اس کی استطاعت بڑھائے تاکہ بلوچستان کے عوام کو پورے سال اور 24گھنٹے بجلی ملے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ قومی گرڈ سے بلوچستان کا چپہ چپہ منسلک ہو ۔ اگروفاقی ادارہ قومی گرڈ سے بجلی کی فراہمی نہیں کرتی تو ان دور دراز علاقوں کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جائے اور صنعتی زون کے لئے قومی گرڈ سے بجلی فراہم کی جائے ۔
پاکستان میں توانائی کا بحران
وقتِ اشاعت : October 16 – 2015