|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2015

آج پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی برسی ہے ۔ اسی دن 1951ء میں لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا ۔ اس کا قاتل ایک افغان تھا ۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ قاتل کو صف اول میں جگہ دی گئی اور اسکے پاس ہی سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے ۔ جوں ہی قاتل نے لیاقت علی خان پر فائر کھولے اور ان کو شہید کیا ۔ ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے سیکورٹی اہلکاروں نے قاتل کو موقع پر ہی گولیاں مار کر ہلاک کردیا ۔ ویسے تو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ عام ہجوم نے غصے میں آکر قاتل کو ہلاک کیا لیکن درپردہ یہ اس سازش کا حصہ تھا کہ شہادت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے اس لیے قاتل کو ہی مار ڈالا گیا تاکہ دنیا کو معلوم ہی نہ ہو سکے کہ وزیراعظم پاکستان کے قتل کے پشت پر کون تھا ۔ بہر حال اس مقدمے کی تمام شہادتیں ایک ایک کرکے ضائع یا تباہ کردی گئیں تاکہ آنیوالی حکومتیں اصلی سازشی عناصر اور قاتلوں تک نہ پہنچ سکیں ۔ بہر حال اس سیاسی قتل کا فائدہ اٹھانے والے برطانوی راج کے نوکر شاہی کے افسران تھے۔ خواجہ ناظم الدین اس وقت گورنر جنرل کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ان کو مشورہ یہ دیا گیا کہ وہ وزیراعظم بن جائیں اور قوم کی رہنمائی کریں ۔ اس شریف النفس انسان نے حامی بھری اور وزیراعظم بن گئے ۔ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل مقرر کردیا گیا وہ برطانوی راج کے نوکر شاہی کے بہت بڑے سرخیل تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایوان اقتدار پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نوکر شاہی کا قبضہ ہوگیا بلکہ قبضہ آج دن تک جاری ہے ۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں اس دور میں برطانیہ اور امریکا میں سرد جنگ جاری تھی ۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جنگ میں شرکت کے لئے یہ شرط رکھ لی تھی کہ برطانیہ اپنے تمام نو آ بادیات خصوصاً ہندوستان کو آزاد کرے گا اور اپنی حاکمیت کو عوام کے حوالے کرے گا ۔ اس لئے ہندو پاک کی آزادی کا پورا عمل ہفتوں میں مکمل ہوگیا۔ جون پلان آیا اور اگست میں پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے ۔ برطانیہ اس خطے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلا گیا مگر برطانیہ اپنی نوکر شاہی کی روپ میں پورے ہندوستان ‘ پاکستان میں موجود تھا۔ پاکستان کی نوکر شاہی ہدایات لندن سے ہی لیتی تھی ۔ جب لیاقت علی خان نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت مسترد کردی اور امریکا جانے کا فیصلہ کیا، اس پر برطانیہ آگ بگولہ ہوگیا کہ پاکستان برطانیہ کو چھوڑ کر امریکا کے کیمپ میں جارہا ہے ۔ یہی وجہ لیاقت علی خان کے قتل کی تھی اس کی پشت پر برطانیہ کے خفیہ ادارے تھے اور عمل درآمد پاکستان کے نوکر شاہی نے کی ۔ اس قتل کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا ملک نوکر شاہی کے قبضے میں چلا گیا اس لئے وزیراعظم صدر ‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء سے نوکر شاہی اب بھی طاقتور ہے ۔ جب کبھی صدر وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ مشکل میں ہوتے ہیں تو وہ نوکر شاہی سے رجوع کرتے ہیں ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ عام انتخابات میں نوکر شاہی کی مرضی کے مطابق اراکین اسمبلی الیکشن جیت کر آتے ہیں اور حکومت بناتے ہیں کبھی پی پی کی حکومت اور کبھی مسلم لیگ اقتدار میں ان کے حکم نامے کے بعد آتے رہے ہیں ۔ یہ سب کھیل لیاقت علی خان کے قتل کے بعد شروع ہوا اور ابھی تک یہ عمل جاری ہے ۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی عمل اس دن سے بے دخل ہوگیا بعد میں سیاستدانوں نے بہت کوششیں کی کہ اصلی اقتدار دوبارہ حاصل کریں تو وہ کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ نوکرشاہی زیادہ طاقتور ہے ۔ نوکر شاہی کو اس ملک میں بعض طاقتور طبقات کی زبردست حمایت حاصل ہے ۔ انہی کی وجہ سے پاکستان پڑوسی ملک افغانستان کی خانہ جنگی میں کود گیا اور آج تک اس کی سزا پور املک اور پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ اگر نوکر شاہی سوویت یونین سے معاملات نہ بگاڑتی اور افغان خانہ جنگی میں شمولیت اختیار نہ کرتی تو پاکستان اور اس کے عوام پر اتنی بڑی تباہی نہیں آتی ۔ وہی جنگجو جو ہمارے کہنے پر افغانستان میں لڑ رہے تھے انہوں نے اپنے بندوقوں کا رخ ہماری طرف کردیا اور آج تک وہ ریاست پاکستان اور اس کی عوام کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔