پورے بلوچستان میں نصیر آباد واحد خطہ ہے جو غذائی اجناس کی پیدوار میں خود کفیل ہے ۔ اسکی بنیادی وجہ 1935ء میں نہری نظام کی تعمیر ہے جس سے سکھر کے نہروں کے ذریعے نصیر آباد ڈویژن کو سیراب کیا گیا۔ صدر ایوب کے دور میں خصوصاً 1960کی دہائی میں پٹ فیڈر تعمیر ہوا۔ پٹ فیڈر کی وجہ سے کئی لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوا ۔ لیکن یہ دونوں نہریں نصیر آباد ڈویژن کو سیراب کرتی ہیں حالیہ دور میں کچھی کینال زیر تعمیر ہے ۔ اس کنال کا ایک مرحلہ مکمل ہونے کو ہے جو بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ زمین کوآباد کرے گا۔ کچھی کینال کا منصوبہ 1980ء کی دہائی میں بنایا گیا تھا مگر اس پر عمل درآمد اب ہورہا ہے ۔ وہ بھی دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے 25سالوں بعد ‘ دریائے سندھ کے پانی کے تقسیم کا معاہدہ 1991ء میں ہوا تھا جس کی رو سے بلوچستان کو دریائے سندھ کے نظام آبپاشی سے دس ہزار کیوسک پانی ملنا تھا ۔ اس پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بلوچستان کو اضافی نہری پانی دینے کے لئے کچھی کینال تعمیر کیجائے۔ پچیس سال بعد اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے جو بگٹی قبائلی علاقے کو سیراب کرے گا۔ مجموعی طورپر کچھی کینال سے سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین آباد ہونی ہے ۔ یہ زمین کچھی اور سبی کے میدانی علاقے میں واقع ہے ۔ جتنے سال بلوچستان کو اضافی پانی سے محروم رکھاگیا یہ پانی سندھ اور پنجاب نے بغیر کسی معاوضے کے استعمال کیا اور ابھی تک کررہے ہیں معلوم نہیں کہ کچھی کینال کا منصوبہ کب مکمل ہوگا، اس کے مکمل ہونے کے بعد ہی یہ کہا جاسکے کہ اب بلوچستان غذائی معاملات میں خود کفیل ہے اس سے قبل نہیں ۔ چونکہ بلوچستان کے منصوبوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ان کو متعلقہ فورم میں کوئی نہیں اٹھاتا ۔ ممکن ہے کہ کچھی کینال کا منصوبہ مزید پچیس سال لے ‘ فنڈز وفاق کے پاس ہیں۔ اس لئے حکومت بلوچستان کچھ نہیں کر سکتی ۔ سیاسی لیڈر اور صوبائی حکمران وفاقی اداروں اور حکمرانوں کے ہاتھوں بلیک میل ہیں کیونکہ ان کی اقلیتی حکومت ہے ۔ اگر کبھی شور شرابا کیا تو اختر مینگل کی طرح ان کو گھر واپس بھیج دیا جائے گا بمعہ12وزیروں کے جنہوں نے جھنڈے اور ڈنڈے کے ساتھ اپنی پارٹی چھوڑ کر حزب اختلاف سے مل گئے اور اپوزیشن کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ ایسی غلطی صوبائی حکمران دوبارہ نہیں کریں گے لہذا جو بھی وفاق دے گا اور جو بھی مقتدرہ کا حکم ہوگا سر تسلیم خم ہے اس لئے یہ وفاقی حکمرانوں کی مرضی ہے کہ بلوچستان کو غذائی طورپر خود کفیل بنائیں یا اس کو سندھ اور پنجاب کا محتاج رکھیں ۔ دوسری جانب صوبائی حکومت اپنے وسائل اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے ڈیم تعمیر کر سکتی ہے بلکہ وفاق کو بھی مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان اسکیموں میں شمولیت اختیار کرے تاکہ بلوچستان فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنائی جائے ۔ بلوچستان حکومت اپنے ترقیاتی فنڈ گٹر اسکیموں پر خرچ کرکے ضائع کررہی ہے جس سے نہ لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور نہ ہی پیداوار میں اضافہ یا حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتی ہے ‘ ترقی کیلئے 54ارب ایک خطیر رقم ہے جس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چائیے اس کو سیاست کی نظر نہیں کرنی چائیے ،یہ نہ ہو کہ ایم پی اے حضرات خوش اور حکومت چلتی رہے، 18ویں ترمیم کے بعد کابینہ کا حجم کم سے کم ہوگیا اس سے قبل ہر صوبائی اسمبلی کارکن و زیر تھا اب نہیں ہے۔ اراکین نے اس کو تسلیم کر لیا ۔ ایم پی ایز میں فنڈز کی تقسیم کو بند کیاجائے اور اراکین اس فیصلے کو بھی تسلیم کریں گے جس سے بلوچستان بھرمیں بڑے اورچھوٹے ڈیم بنائے جائیں اور صوبے کے ہر خطے اور ہر ضلع یا تحصیل غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو ۔ اس سے ہٹ کر ایف اے او ہر ضلع میں جدید طرز کے گندم کے گودام تعمیر کرے تاکہ گندم وہاں پر سالوں محفوظ ہو اور محکمہ فوڈ کے کرپٹ افسران گندم چوری نہ کرسکیں ۔کوئٹہ میں موجود ان جدید گوداموں کو فعال بنایاجائے اور ان کو استعمال میں لایاجائے ۔ صوبائی حکومت اس کے اخراجات برداشت کرے تاکہ گندم چوری اور خراب نہ ہو ۔
بلوچستان میں فوڈ سیکورٹی
وقتِ اشاعت : October 18 – 2015