|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2015

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین نے حکومت پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے کہ افغان مہاجرین کو مزید دو سال تک پاکستان میں رہنے دیا جائے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ نے کابل میں ایک اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ افغان مہاجرین کو دو سال مزید پاکستان میں رہنے دیا جائیگا ۔ اس اجلاس میں پاکستان ‘ ایران اور افغانستان کے وزراء کے علاوہ اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شریک تھے ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی اس اجلاس میں قندوز کی صورت حال کے پیش نظرشرکت نہ کر سکے۔ اب معاملہ پاکستان کے وفاقی کابینہ کا ہے کہ آیا وہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کے لئے مزید دو سال کی توسیع کرتی ہے کہ نہیں ۔ عالمی برادری ‘ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کی توسط سے گزشتہ 35سالوں سے حکومت پاکستان پر یہ دباؤ تسلسل کے ساتھ ڈال رہی ہے کہ افغان مہاجرین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان میں رہنے دیا جائے تاکہ اقوام متحدہ اپنا مشن پاکستان میں بند کرے اور شام کا رخ کرے جہاں پر بیس لاکھ سے زائد مہاجرین ترکی میں موجود ہیں ۔ اب اقوام متحدہ یا عالمی برادری کے لئے افغان مہاجرین کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے ۔ اس لئے اس ادارے کو فنڈ کی کمی کا سامنا ہے آج کل اقوام متحدہ یا عالمی برادری نے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیاہے کہ اگر افغان مہاجرین کو سیکورٹی اور معاشی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں نہیں رہنے دیا گیا تو وہ مغربی ممالک خصوصاً یورپ کا رخ کریں گے جس سے مشرق وسطیٰ کے مہاجرین کا معاملہ زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرے گا ۔ جہاں تک اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ 2001ء سے لے کر آج تک 35لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے جا چکے ہیں ۔ لیکن یہ زیادہ بڑی حقیقت ہے کہ ستر لاکھ سے زیادہ افغان واپس پاکستان آچکے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو معلوم ہے کہ افغان خاندان اقوام متحدہ سے رقوم لے کر چلے گئے اور چند ماہ بعد دوبارہ پاکستان واپس آگئے ۔ چونکہ افغان خانہ جنگی کے دوران پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اکثر افغانوں کو شہری علاقوں میں رہنے دیا تاکہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو اور وہ افغانستان جا کر خفیہ کارروائیاں کریں ۔ اس لئے وہ پہلے بھی شہری علاقوں میں موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں ۔ ان میں سے کوئی اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ بہر حال یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہے کہ اقوام متحدہ یا عالی برادری افغان شہریوں کے لئے پاکستان کے اندر ذریعہ روزگار فراہم کرے۔ مہاجر صرف کیمپ میں رکھے جائیں اور عالمی برادری ان کے خوراک اور رہنے کا بندوبست کرے نہ کہ ہمارے ملکی وسائل کو افغانوں کے استعمال کے لئے مخصوص کرے ۔ بہر حال افغان مہاجرین کی پاکستان کی سرزمین پر موجودگی نا قابل قبول ہے ۔ بین الاقوامی برادری عوام کے اس مطالبے کو تسلیم کرے اور حکومت پاکستان پر سیاسی دباؤ ڈالنا بند کرے کہ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کی جائے بلکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک اچھا مشورہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو دیا تھا کہ تمام افغان مہاجرین کو افغانستان منتقل کیا جائے اور وہاں ان کے لئے مہاجر کیمپ بنائے جائیں بین الاقوامی برادری اس کے لئے فنڈ اور وسائل فراہم کرے جتنے سال وہ افغانستان کے مہاجر کیمپوں میں رہنا پسند کریں اس پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ روزگار کے مواقع پاکستان میں صرف پاکستانیوں کے لئے ہیں افغانوں کے لیے نہیں ہیں ۔ افغان معیشت پر بوجھ ہیں خصوصاً ایسے وقت میں جب ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔ پھر افغان اس ملک کے لئے سیکورٹی رسک بھی ہیں کوئی ایسا دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوتا جس میں افغان شہری ملوث نہ ہوں ا س لئے حکومت پاکستان خصوصاً وفاقی کابینہ ان کے مزید قیام کی مدت میں توسیع نہ کرے کیونکہ حکومت کی جانب سے یہ عوام دشمن فیصلہ تصور ہوگا ۔