|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2015

سکندر و اعظم اپنے استاد محترم کے ہمراہ کہیں جارہے تھے راستے میں ایک دریا آیا جس کو پار کرنے میں موت کا خطرہ تھا تو اسکندر اعظم جب دریا پار کرنے لگے تو استاد محترم نے روک کر کہاکہ آپ بادشاہ ہو ۔کئی آپکو کچھ ہو گیا تو سلطنت کا کیا بنے گا اس لئے پہلے میں جاتا ہوں بعد میں آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ ردیا کتنا خطر ناک ہے سکندر اعظم نے استاد کو رک کر کہا کہ پہلے میں جاؤں گا کیونکہ مجھے کچھ ہونے کے بعد آپ مجھ جیسے کئی بادشاہوں کو پیدا کر لوں گااگر آپ کو کچھ ہو گیا تو ہم اس عظیم ہستی کو کھو دیں گے جس نے مجھ جیسے انسان کو سلطنت کے بادشاہ ہونے کے قا بل بنایایہ تھا ایک بادشاہ کی نظر میں استاد کی اہمیت اہترام اور عزت کامیاب قومیں اور ممالک تعلیم اور تعلیم یافتہ انسانوں کے بل بوتے کامیابی ترقی و کامرانی کے منازل طے کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ۔دنیا میں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور قو موں کی بنیادترقی ترجیح تعلیم اورحقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ اسا تذہ ہیں ۔کہتے ہیں کہ اگر لوگ آپ سے متاثر ہو کر آپ کی کردار وکومثال اورآپ کو آئیڈیل بنا کر اپنے خوابوں کی تعبیر آپ کے اعلیٰ کردارکے سائے تلے سچ ہوتادیکھے آپ سے متاثر ہو کر کچھ کرنے کچھ بننے اور کچھ کر کھانے کا جذبہ پیداہوتو جان لیجئے کہ آپ عظیم انسان ،عظیم استاد اور عظیم لیڈر ہو۔ہمارے ہاں زندگی کے تمام شعبوں پر خصوصی بحث مباحثے ،تحریریں ،تجزئیے ،کالم لکھے جاتے ہیں لیکن تمام تر شعبوں کے افراد کی صحیح و حقیقی معنوں میں بنیاد رکھنے والے اسا تذہ کرام اور تعلیم کو انتہائی کم اہمیت دی جاتی ہے جو ہمارے معاشرے کی ناکامی کیلئے ایک بہت بڑالمیہ ہے اور حقیقی تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہم اب تک جہالت کے اندھیروں میں ڈوب کر ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل نہیں ہو سکے آج مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آج میں بلوچستان کے ایک عظیم اور قابل قدر استاد ڈاکٹر عثمان توبوال سے متعلق لکھ رہا ہوں ایک مشہور فلاسفر کا قول ہے کہ غریب پسماندہ اور کرپٹ معاشرے میں پیدا ہونا جرم نہیں ہے بلکہ غریب پسماندہ اور کرپٹ معاشرے میں پیدا ہو کر اپنی تقدیر نہ بدلنا جرم ہے اس قول کو قابل قدر استاد عثمان توبہ وال نے اپنے اعلیٰ کردار مثبت سوچ ،جذبے اور استقامت سے سچ کر دکھایا ہے ۔ ڈاکٹر عثمان توبوال بلوچستان کے ایک غریب اور پسماندہ ترین علاقے توبہ اچکزئی میں 1968میں پیداہوئے جہاں پر تعلیم کا تصور تک نہ تھا تعلیم کے لیے باقی وسائل تو دور کی بات ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی 1993 میں ما سٹر کی ڈگری حاصل کی ۔2004 میں ایم ۔فل کیا 2011 میں PHD کی ۔اس وقت ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سینٹر یونیورسٹی آ ف بلوچستان کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔موصوف نے ہمارے معاشرے میں موجود تمام تر کمزوریوں ،خامیوں اور نامساعد حالات وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی جس طرح ہمارے صوبے میں علم و قلم کی شمیں روشن کئے اور کر رہے ہیں جس طرح علم کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں کو دور کر رہے ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ اندھیرادورکرنے کیلئے روشنی کی کرن کافی ہے۔موصوف نے مشکل ترین حالا ت میں علم و قلم کے اتنے پودے اگائے ہیں جو آج تنا ور درخت بن کر پروفیسر زڈاکٹرز اور لیکچرارز وغیرہ کی شکل میں اپنے ملک و قوم کی خدمات کر رہے ہیں ۔انہوں نے اپنی محنت ،جذبے ،ہمت ،استقامت سے ثابت کر دیا ہے کہ ارادے جنکی پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو تلاتل خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے یعنی پسماندہ غریب ،معاشرے میں پیدا ہونے کے باوجود ابھی انسان اپنی کمزور اور بُری تقدیر بدل سکتاہے اور اپنی جدو جہد مستقل ،مزاجی ،دیانتداری اور تعلیم کے بدولت اعلیٰ مقام پا کر دوسروں کے لیے مثال بن سکتا ہے ۔بلو چستان کی تاریخ میں پہلی بار خان عبدالصمد خان شہید جیسے عظیم وژنری تاریخی اورفلسفانہ شخصیت پرPHD کرنے کا اعزاز موصوف کوحاصل ہے انہوں نے نام بنیاد افراد کے بجائے خان عبدالصمد خان شہید پر PHD کر کے ایک نظر یے کوفروغ دیکرزندہ مثال قائم کی ۔ ان کے وژن کی بدولت آج کئی طالب علم خان عبدالصمد خان شہید کے محب الوطنی ،قربانی اور جدو جہد سے متاثر ہو کر ان میں خان عبدالصمد خان شہید پر PHD کرنے کا جذبہ اورشعوراجاگر ہوا ہے ۔ڈاکٹر عثمان توبوال کے سا ئے تلے اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں (26 1)ایم فل اور PHD کے طالب علم ہیں جس میں سے (25 )پی ایچ ڈی اور (101)ایم فل کے طالب علم ہیں ۔17-10-2015 کو PHD سیمینار کا انعقاد ہوا اور جس میں پہلے اسٹوڈنٹ نے پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کی گزشتہ دو سالوں میں موصوف کی قیادت میں 12طلباء ایم فل مکمل کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کلاسزطالب علموں کیلئے خواب تھالیکن ڈاکٹر صاحب کی انتھک محنت اور ناقابل فراموش کاوشوں کی بدولت پہلی بار بلوچستان میں ایم فل اور PHD کی کلاسز شروع کئے گئے جس سے آج سینکڑوں کی تعداد میں طالب علم مستفید ہو رہے ہیں ۔ اب میں ڈاکٹر عثمان توبوال کا وہ عظیم کارنا مہ قلمبند کرنے جارہاہوں جس پرمجھے بے فخراورخوشی محسوس ہورہی ہے موصوف نے بلوچستان یونیورسٹی میں دوچیئر1 خان عبدالصمد شہید 2نواب میریوسف عزیزمگسی اکیڈمک کونسل جو کہ 110 پروفیسرز پر مشتمل ہیں وائس چانسلر جاوید اقبال اوررجسٹرارکے بھر پور تعاون کے بدولت متعارف کروائے جس پر 110 ملین روپے کی لاگت آئی جسکی تکمیل 2015 کے آخرتک مکمل ہوجائیں گی جس میں سیمینارہال ،لائبریری ،ایم فل پی ایچ ڈی کلاسزاورکمپیوٹرلیب شامل ہے انہوں نے بلوچستان کے ان دو تاریخی اور عظیم انقلابی شخصیت کے نام رو چیئرزمتعارف کر وا کے ثابت کر دیا ہے کہ موصوف فقط نام ایک بشراور بظاہر ایک ڈائریکٹرہیں لیکن تا ریخی شخصیات کی زندگی کی قربانیوں ،جدو جہد اور عظمت کو ایک بار پھر زندہ کرکے بلوچستانی عوام کے دل جیت لئے ڈاکٹر عثمان توبوال کو ان کی اعلیٰ خدمات پر بر گیڈیر آغا گل نے Star Awards سے نوازاصوبائی اور علاقائی سطح پر انکو کئی ایوارڈز اور اعزازی سر ٹیفکیٹس مل چکے ہیں ان تمام واقعات اور دلائل کامقصدیہ ہے کہ ڈاکٹر عثمان توبوال جیسے دور اندیش ،ذہنی ، فکری،شعوری آزادی کے مالک بلوچستان میں تعلیم کے میدان میں وہ سپہ سالار ہے کہ جنہوں نے علم و قلم اور تعلیم کواپنانصب العین بنا کر ہمیشہ میرٹ پر مبنی فیصلے کئے اپنے اختیارات کو طالب علموں کی فلاح و بہبود اور صوبے میں تعلیم کی ترقی و کامرانی کے لیے استعمال کیے ۔ انہوں نے بلوچستان میں تمام ترنامناسب کمزور اور خراب حالات کے باوجود تعلیم کے میدا ن میں جو کارنامے انجام دیے ان کا بلوچستانی عوام اور انکی آئندہ آنے والی نسلوں پر ہمیشہ احسان رہے گا ۔ڈاکٹر عثمان توبوال نے اپنی مثبت سوچ ،قربانی ،جدو جہد کے بدولت بلوچستان کے طالب علموں ،استادوں اور عوام کے دلوں اور دعاؤں میں اعلیٰ مقام پا لیاہے استقا مت،ہمت ،دیانت اورمحنت کی علامت بن کر نوجوانوں کے لیے رول ماڈل اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کر دار ادا کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے علم و قلم کے سچے سپاہی بن کر جہاں تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنا مے سر انجام دے رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ طالب علموں میں حقیقی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کر کے یہ ثابت کر دیاکہ وہ ایک عظیم انسان ،عظیم استاد اور بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے ایک عظیم لیڈ بھی ہیں اور پورے بلوچستان کے عوام کو ان پر فخر ہے ۔