|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2015

گوادر:  بلوچستان نیشنل پارٹی کے سنیٹر جہاں زیب جمالدینی اور ایم پی اے میر حمل کلمتی نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں کہا کہ صحافی اس ملک کے چوتھے ستون کی حثیت رکھتے ہیں۔لیکن بلوچستان میں مقامی صحافیوں کو کوئی سہولت حاصل نہیں ، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے اخباری صنعت کے مالکان اور اور اخبارات بلوچستان کے خبروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں صرف چند اخبارات جن کا تعلق بلوچ علاقوں سے ہیں وہ بلوچستان کے سیاسی پارٹیوں کی خبروں کو شائع کرتے ہیں لیکن اکثر اخبارت بلوچستان کی خبروں سے خالی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں معمولی خبر پر بریکینگ نیوز چلتی ہے۔ انہوں نے کہا جب ہم آج پریس کلب آرہے تھے تو گوادر انجمن تاجران ایک احتجاجی جلوس نکال رہے تھے، ہم ترقی کے حق میں ہیں لیکن یہ بات نہیں کہ کسی کوترقی کے نام پر بے دخل کیا جائے اس سے ان کا روزگار چھین لیا جائے، ہم سے تو لیبیا ایک پسماندہ ملک ہے جب وہاں سڑک بنانے کی ضرورت ہوئی تو سب سے پہلے ان متاثرین کے لئے بہترین سہولتوں کے ساتھ مکانات تعمیر کئیے گئے۔ اور ایک دوسری افسوسناک خبر یہ ہے ایک طرف حکومت دعوی کرتی ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی پکڑ دھکڑ بند ہے لاشوں کا گرنا بند ہو چکاہے لیکن کل رات ایک طالب علم کو اس کے گھر سے اُٹھایا گیا ، ایک بلوچ معاشرے میں گھر کی چاردر و چار دیواری کو پائمال کیا گیا ہے۔ کیا اس سے نفرت میں اضافہ نہیں ہوگا ؟، لیکن محبت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ گوادر کے ماہی گیر محنت کش غربت کی چکی میں پیس رہے ہیں غیر علاقائی اور غیر ملکی ٹالروں نے پورے سمندر کو تاراج کر دیا ہے۔ مچھلی کی نسل کشی جاری ہے، ساحل و وسائل کو لوٹا جا رہا ہے، سمندری حیات کو تباہ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت خاموش تماشائی ہے۔ گوادر کے لوگ پیاسے ہیں انہیں سوڈ اور ڈیزلیسشن کے ذریعے پانی پہنچانے کی بات کی جا رہی ہے لیکن سوڈ ڈیم کے متاثرین کو دو سال پہلے اگر معاوضہ دیا جاتا تو آج گوادر میں پانی کی کمی نہ ہوتا۔ گزشتہ کئی سالوں سے ایک سازش کے تحت افغانی مہاجرین کو بلوچستان میں بسایا جا رہا ہے جس سے ڈیموگرافک تبدیلی آچکی ہے ، ایک پارٹی باقاعدہ انہیں لیگل کرانے کے لئے کوششیں کر رہی ہے ، جبکہ اب افغانستان کے حالات بہت بہتر ہیں ہماری پارٹی کا مطالبہ رہا ہے کہ انہیں فوری طور باعزت ان کے ملک بھیجا جائے۔ اگر انہیں واپس نہ کیاگیا تو بلوچ اقلیت میں ہونگے ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ان کو نہ پاکستان کی شناختی کارڈ دی جائے اور نہ بلوچستان میں دیگر اقوام کو ووٹ دینے کا حق دیا جائے اور نہ انہیں بلوچستان میں زمین الاٹ کیا جائے۔ بلوچستان کی تمام معدنی دولت کو لوٹ کر تباہ کیا گیا ہے اب گیس کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ختم ہونے والی ہے، بلوچستان میں کوئلہ سے بجلی گھر بنائی جا رہی ہے جو دنیا کے اکثر ممالک میں اس پر پابندی ہے۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی نظام تباہ بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، خصوصاً گوادر کے نوجونوں کو ٹیکنکل تعلیم اور میرین کی تعلیم کی ضرورت ہے ان کی ضرورتوں پر سرکار توجہنہیں دے رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو روزگار دیا جائے جو ان کا بنیادی حق ہے ۔ این ایف سی ایورڈ کے تحت جو حقوق بلوچستان کے لئے مخصوص ہیں وہ انہیں ملنا چاہیئے۔ لیکن وفاقی اداروں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے جا رہے ہیں وفاقی محکموں میں بلوچستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ سوئی سدرن سے مرکز کو جو دولت حاصل ہوئی لیکن اس محکمے میں 2% بھی بلوچوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ ہم بلوچستان کے حقوق چاہتے ہیں ہمیں پنجاب ، سندھ اور کے پی کے کے دولت کی ضرورت نہیں ہے، جو معدنیات اور ساحل اور وسائل ہمارے ہیں ان پر ہمارے حق کو تسلیم کیا جائے ، جن سے ہم کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہونگے۔ مرکز میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ہماری پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کی رائے اور بلوچ عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے جب پاک چاہینا اکنامک کوری ڈور پر معاہدے ہوئے بلوچستان کی کوئی نمائندگی نہ تھی، ہمارے لوگوں کو ٹیکنیکل تعلیم نہیں دی گئی 46,بلین ڈالر سے پاکستان چاہینا اکنامک کوری ڈوراور سڑک بنانے کے اس بڑے معاہدے سے دور رکھنے اور اور اس میں گوادر کے لوگوں کے لئے پانی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں اوریہ بلوچستان سے باہر ہی باہر سب کچھ ہو رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب گوادر کا پورٹ سے اس کا تعلق ہے تو گوادر اور بلوچستان کے لوگوں کی رائے کوکیوں اہمیت نہیں دی جاتی ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے بلوچوں کا صدیوں سے ایران کے ساتھ روابط برادرانہ تعلقات ہیں ، کئی سالوں سے چھوٹے پیمانے پر تجارت کا سلسلہ جاری تھا کہ حالیہ دنوں یہ سہولت بھی دونوں اطراف کے بلوچوں کے لئے بند کر دی گئی ہے، چھوٹے پیمانے پر آئل اور تارکول لانے میں نزدیکی علاقوں کوکسٹم کی ادئیگی کے بعد حکومت پاکستان کو بھی اس تجارت سے رینو ملتا تھا اس کو بند کرکے بلوچوں سے ان کایہ حق بھی چھین لیا گیا ہے، ہماری پارٹی فوری طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ چھوٹے پیمانے پر تجارت کو فوری طور پر جاری کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سنیٹ کے فورم پر بلوچستان کی ہمیشہ آواز بلند کی ہے، مرکزی حکومت بلوچستان کے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں پاکستانی اخبارات اور میڈیا بلوچستان کے اکثر خبروں کو چھپاتے ہیںیا من گھڑت خبریں پھیلاتے ہیں جس سے ہماری آواز عوام تک نہیں پہنچ پاتی ہے ہماری باتوں کو غلط رنگ دیا جاتا ہے ، ہم ترقی کے ہرگز دشمن نہیں ہیں ہم وفاق میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ گوادر کے عوام کے شانہ بشانہ ہم اپنے حقوق کی آواز کوبلند کرتے ہوئے اسلام آباد تک جائیں گے یقیناًبلوچستان کے متعلق خبروں کو اس وقت اہمیت ہوگی جب تمام عوام یکجہتی کا مظاہرہ کریں ، گوادر کے ماہی گیروں کو وہی سہولت ملنی چاہئیے جو دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے ماہی گیروں کو حاصل ہیں، آج وہ بڑے بڑے بنگلوں اور بہترین لانچوں اور تمام آلات ماہی گیری سے لیس ہیں، ان کے بچّے خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اتنی سخت محنت مزدوری کرنے والے یہ طبقہ اتنے بڑے ساحل کے مالک جو اس ملک کی معیشت میں ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں، انہیں بھی بہتر زندگی بسر کرنے کا حق ملنا چاہیئے۔ جس کے لئے ہماری پارٹی جدوجہد کر رہی ہے۔