|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2015

کوئٹہ شہر کے پسماندہ ترین شہریوں کے مسافر بس میں بم کا دھماکہ ہوا جس میں 11افراد ہلاک اور 22سے زیادہ زخمی ہوئے ، یہ ٹائم بم تھا ۔ دعویٰ کیاگیا ہے کہ وہ نشانے کی جگہ سے پہلے پھٹ گیا جو شخص بم لے جارہا تھا وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا ۔ یہ دعویٰ ینگ بلوچ ٹائیگر نامی غیر معروف تنظیم نے کیا ہے ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ کاغذی تنظیم ہے ۔ یہ اتفاقی واقعہ معلوم نہیں ہوتا، یہ منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے کہ معصوم انسانوں خصوصاً غریب لوگوں کو نشانہ بنایا جائے ۔ ٹائم بم وقت پر پھٹتا ہے، وقت سے پہلے یا بعد میں نہیں پھٹتا۔ مسافر بس اپنے منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے کئی گھنٹے لیتی ہے ۔ چونکہ اس روز کی یہ آخری بس تھی اور وہ راستے میں تمام مسافروں کو اٹھاتی جارہی تھی اور اس میں گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کررہے تھے شاید اسی وجہ سے مخصوص بس کو نشانہ بنایا گیا تھا کہ اس میں زیادہ ہلاکتیں ہوں ۔ اس بس میں سو فیصد مقامی لوگ تھے اور نشانہ بھی مقامی لوگوں کو بنایا گیا تھا کہ اس سے خوف و ہراس اور دہشت پھیلے۔ اس معاملے میں دشمن ممالک کے جاسوس ادارے ملوث ہوسکتے ہیں تاہم یہ حکومت اور سیکورٹی اداروں کا کام ہے کہ اس بات کا کھوج لگائیں کہ ان میں کون لوگ ملوث ہیں۔ مسافر بس میں دھماکہ ایک انسان دشمن عمل ہے اس میں انسان دشمن لوگ ہی ملوث ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے واقعہ کی بھرپور انداز میں تحقیقات ہونی چائیے تاکہ اصل مجرموں تک پہنچا جا سکے خصوصاً ان دھماکوں کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کیاجائے اور اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ اس دھماکے کا موجودہ ماحول میں اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا کہ عوام میں بد دلی ‘ خوف و ہراس اور دہشت پھیلا کر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا جائے تاکہ دشمن ممالک اپنے اہداف آسانی سے حاصل کرسکیں ۔ ایسے انسان دشمن عناصر کے ساتھ سختی کا سلوک کرنا چائیے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر سیکورٹی کی صورت حال کو زیادہ بہتر اور فعال بنایا جائے تاکہ معصوم لوگوں کی جان و مالی اور عزت و آبرو ہر وقت اور ہر حال میں محفوظ ہو، اس کے لئے عوامی اجتماعات کے مقامات پر سیکورٹی بڑھائی جائے ۔ خصوصاً ملک بھر میں بسوں ‘ ہوائی اڈوں ‘ ریلوے اسٹیشن پر سیکورٹی کے زیادہ بہتر انتظامات کیے جائیں ۔میڈیا اطلاعات کے مطابق طالبان جنگجوؤں پر دشمن ممالک کا اثر غالب نظر آرہا ہے اور ان دشمن ممالک کے احکام کے مطابق طالبان کے بعض گروہ پراکسی وار لڑ رہے ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے درپے ہیں ۔ لہذا عوام کو چائیے کہ وہ ریاست پاکستان اور عوام کے خلاف دہشت گردی کے ہر عمل کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ حکومت اور حکام سے تعاون کریں تاکہ جلد سے جلد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے ۔ خطے کی صورت حال میں سنگینی کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ملک میں مکمل طورپر سیاسی استحکام ہو اور کسی قسم کی کوئی گڑ بڑ نہ ہو تاکہ دشمن اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ فاٹا اور خصوصاً وزیرستان میں فوجی کارروائی کی وجہ سے زیادہ تر طالبان جنگجو راہ فرار اختیار کررہے ہیں ۔ یہ لوگ روپوش ہوگئے ہیں یا افغانستان فرار ہوگئے ہیں افغانستان میں خانہ جنگی میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستانی جنگجو افغانستان میں لڑ رہے ہیں آئے دن کسی اہم شہر پر قبضہ کرتے ہیں ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ آور ہورہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں بھرپور فوجی کارروائی کے بعد طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کا رخ کر لیا ہے اور پاکستان میں امن کی صورت حال زیادہ بہتر ہوئی ہے ۔ادھر فوجی قیادت کا فیصلہ ہے کہ طالبان جنگجوؤں کو واپس اپنے پرانے ٹھکانوں پر نہیں آنے دیا جائے گا ایسے عمل سے استحکام کی صورت حال کو مزید مضبوط بنایا جارہا ہے ۔