پنجگور واقعی اسم باسمیٰ بن گیا ہے یعنی پانچ قبروں کا دیس۔ اب جیسا نام ویساکام اور جیسی روح ویسے فرشتے کا مقولہ بھی اس پر صادق آنے لگا ہے۔ اس کو میں کبھی قبول نہ کرسکا کہ تاریخ اس کے برعکس تعبیر کی نشاندہی کرتی ہے اور ہم نے جب ان قبروں یا مردوں کو ڈھونڈا تو ان کو تلاش نہ کرسکے یہاں پانچ صحاب کرام کی قبریں ہیں۔ ہمیں تین گنبد ضرور ملے ایک تو عہد حاضر کے خان کے کسی نائب کی ہے جس نے کسی بیوہ کے لیلا کو کاٹ کھایا اس کو بیوہ کی بدعا لگی وہ درد قولنج میں مبتلا ہو کر مر گئے۔ دوسرا گنبد شاہ قلندر سے منسوب ہے مگر اس کی گل کاریاں اور عکس عہد زرتشت کی نشاندہی کرتے ہیں اور زمانہ حال تک اس کی زیر زمین غار میں حنوط شدہ لاشیں محفوظ تھیں مگر دست برد سے بچ نہ سکیں اور تیسرا گنبد گرمکان میں ہے جو حاکموں کا قبرستان تھا جس میں ہمارے اور آپ کے آباواجداد مدفون ہیں اور یہ گنبد جب بھی گونجتی تو لوگ پریشان ہوجاتے کہ کوئی حاکم مرنے والا ہے مگر اب اس کی گونج بند ہو گئی ہے کہ وادی میں کوئی حاکم نہ رہا تو گورپٹوں نے اس کو بھی تباہ کر ڈالا ،مگر دو قبریں تو لسبیلہ میں ہیں ایک عرب جرنیل ہارون کی ہے اور ایک برطانوی افسر سررابٹ سنڈیمن کی ہے جس نے نوآباد کارانہ سیاست اور سفارت کے طفیل اس وقت کے حاکموں اور سرداروں سے مل کر بلوچستان کو برٹش ایمپائر میں شامل کر لیا اور وہاں آپ کی جدی راجدھانی لسبیلہ میں مدفون ہوا کہ اس کو لسبیلہ، پنجگور اور کولواہ کے روٹ کے سٹرٹیجک اہمیت اور جنوبی بلوچستان کی سیاسی اور جغرافیائی محل وقوع کا 1875ء سے علم تھا اس لئے ان علاقوں کا پولیٹکل ایجنٹ کراچی میں مقیم تھاا اس نے ایک مشن پنجگور بھیجا تھا تاکہ اس خطہ میں ریلوے لائن بچھانے کے لیے سروے کرے مگر مشن کے آنے سے پہلے آخرت کے مشن پرروانہ ہوا ہمیں حیرت ہے کہ آپ ان سب نسبتوں، اہمیتوں سیاسی اور جغرافیائی عوامل کو اپنی سیاسی لائحہ عمل میں اہمیت ہی نہیں دے رہے ۔
دس اکتوبر 015 ء کو کوئٹہ سے صبح پنجگور کے لئے روانہ اس امید کے ساتھ ہو ا کہ پنجگور کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہونگے سب سے پہلے ناگ کا 120کلومیٹر کا ٹکڑا جو کہ پہلے چار گھنٹے میں طے ہوتا تھا اس دفعہ ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کر کے قریباً چار بجے کے قریب گرمکان پہنچا اور وہیں دوپہر کا کھانا کھایا۔ میں تقریباً چار سال بعد پنجگور واپس گیا اس دفعہ اپنے کزن امیر جان کی شادی میں شرکت کے لئے پنجگور گیا۔ شادی جب شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہ دیکھنے میں آیا کہ سب تقاریب دوپہر کے اوقات میں رکھے گئے ہیں جس کی وجہ گزشتہ دس سال کے حالات بتائے گئی اور اب یہاں رات کے اوقات میں کوئی تقریب نہیں ہوتی اور مجھے یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ شادیوں میں بہت سے گلف ممالک کے رسومات ہماری ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں اور کچھ ڈش ٹی وی کے اثرات بھی دیکھنے میں آئے بلوچ جسے رچ کلچر کا وارث کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ بلوچی زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا استعمال ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔ اسی طرح کی بہت سی تبدیلیاں میں نے محسوس کیں۔ گرمکان کا شمار پنجگور کے پڑھے لکھے تحصیل میں کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں پنجگور کے حالات سب سے زیادہ خراب ہوئے ہیں لیکن اب ایک امید کی کرن نظر آنا شروع ہوئی ہے اور حالت بہتری کی طرف گامزن ہے ۔ 2013ء میں پنجگورمیں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند ہو چکے تھے اس دفعہ یہ معلوم ہوا کہ 2015ء سے پنجگور شہر کے سارے تعلیمی ادارے فعال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور پنجگور میں ایک کیڈٹ کالج نے بھی کام شروع کیا ہے جوکہ تعلیمی میدان میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔پنجگور ہاسپٹل بھی پہلے سے بہت بہتر حالت میں ہے ڈاکٹر حضرات بھی یہاں موجود ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر فہیم بلوچ سے پتہ چلا کہ اب ہسپتال میں سرکاری دوائی بھی موجود ہے جسے مریضوں کو مفت فراہم کی جاتی ہے۔پنجگور شہر میں پہلے کی نسبت حالات بہت بہتر ہیں اور وہاں سیاسی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہیں جس دن میں پہنچا میں نے دیکھا بی این پی مینگل کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب کا استقبال 500گاڑیوں کے قافلے نے کیا، انہوں نے پنجگور میں دو مصروف دن گزارے اور روانہ ہو گئے اور اسی طرح پنجگور کی دیواروں اور چھتوں پر پاکستان اور سیاسی پارٹیوں کے لاتعداد جھنڈے نظر آئے جو کہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پنجگور میں اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔واپسی سے ایک دن پہلے تحصیل چیئرمین میر پلہین اور علاء لدین ایڈووکیٹ پر حملے کی خبر سنی تو خیریت دریافت کرنے پلہین کے مہمان خانہ گئے خیریت دریافت کی اور وہاں بھی یہی ذکر تھا کہ اب حالات بہت بہتر ہیں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر اب حالات صحیح ہو چکے ہیں جس میں سول سوسائیٹی، سیاسی پارٹیوں اور عالموں کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔پنجگور میں سول سوسائیٹی کا قیام ایک اچھا اقدام تصور کیا جارہا ہے ترقیاتی کام بھی مختلف حوالوں سے جاری وساری ہے ۔یہ خبر بھی سننے میں آئی کہ آفیسر کلب کو دوبارہ فعال کیا جارہا ہے موجودہ سیاسی قیادت نے پنجگور کے حالات میں بہتری لانے ل کے لیے اپنا فریضہ انجام دیا ہے اور اس پر کام بھی کر رہی ہے ۔پنجگور کے دو ایم پی اے رحمت صالح بلوچ اور حاجی اسلام بلوچ نے گزشتہ عید پنجگور میں گزار کر لوگوں میں گھل مل کر مختلف سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ آخری دفعہ 2011ء میں جب پنجگور پہنچے تو حالات انتہائی خراب تھے ہم اپنے مرحوم بڑے بھائی میر بالاچ کی تدفین کیلئے پنجگور میں صرف اورصرف تین دن ہی قیام کر سکے اور اگلے دن ہی روانہ ہو گئے کیونکہ اس وقت پنجگور کے حالات اور خاص طور پر گرمکان کے حالات سب سے زیادہ خراب تھے ۔ پنجگور جوکہ کھجور کے باغات کی وجہ سے بہت مشہور ہے لیکن کھجور کے باغات کو ایک مرض (شیر اگو) لاحق ہے جس کا پچھلے 15سالوں سے کوئی علاج نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے پنجگور کے باغات کی فصلات 50فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکے ہیں صوبائی حکومت صحیح معنوں میں اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے جبکہ مختلف این جی اوزاپنی حیثیت کے مطابق اس پر کام کر رہے ہیں۔ایک اور مسئلہ جو دیکھنے میں آیا کہ پنجگور میں لینڈ مافیا سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے میں مصروف ہے ، اس پر مقامی انتظامیہ کی خاموشی باعثِ حیرت ہے ۔کوئٹہ پنجگور شاہراہ پر تیزی سے کام جاری ہے جو اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہوگیا تو اس کا فائدہ مقامی زمیندار وتاجروں کو پہنچے گااور حالات زندگی میں بہتر نظر آئے گی لیکن لوگوں کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانی پڑے گی تاکہ پنجگور کی نصف سے زیادہ آبادی جو دوسرے شہروں میں آباد منتقل ہوچکی ہے ان کی واپسی کے لئے اقدام بھی کرنے پڑیں گے تاکہ پنجگور کی خوبصورتی جو 2000ء سے پہلے تھی بحال ہو سکے ۔آمین
پنجگور کے حالات میں بہتری
وقتِ اشاعت : October 23 – 2015