بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں پر آئے دن طوفان اور قدرتی آفات آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ بارہ سالوں میں بلوچستان میں دس قدرتی آفات نے مکمل تباہی مچائی اور حکومت ان سے نمٹنے میں مکمل طورپر ناکام رہا ۔ وفاقی حکومت کا طرز عمل بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہمد ردا نہ نہیں بلکہ امتیازی رہا ۔ متاثرین کی امداد کے بجائے ہمیشہ چند دنوں بعد راہ فرار اختیار کی اور کبھی بھی معیشت کے نقصانات کا ازالہ نہ کیا اور نہ کرنے کی کوشش کی ۔ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ عملاً تسلیم نہیں کیا اور لوگوں کو زلزلہ ‘ بارش ‘ طوفان ‘ سیلاب کے بعد اپنے حال پر چھوڑ دیا ۔ یہی نہیں بلکہ اعلانیہ طورپر دنیا کے ممالک کو کہہ دیا کہ بلوچستان اور اس کے عوام کو بین الاقوامی امداد کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے لئے بلوچستان ایک انتہائی حساس صوبہ ہے اس لئے ریاست پاکستان ان ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہے اور متاثرین آفات اللہ کے رحم و کرم پر۔ پندرہ سال قبل قحط سالی آئی تھی اس میں سابق گورنر نے مقتدرہ کی ایماء پر یہ اعلان کردیا تھا کہ بلوچستان اور اس کے متاثرین عوام کو بین الاقوامی امداد کی ضرورت نہیں لہذا دوست ممالک سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ بلوچستان کی عوام کے لئے امداد روانہ کریں ۔ جب عوامی رائے عامہ کی جانب سے جنرل مشرف کی پالیسی پر زبردست تنقید ہوئی تو صرف غیر ممالک میں مقیم پاکستانی لیبر فورس سے اپیل کی گئی کہ وہ صرف امداد دے سکتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ریاستیں ‘ برطانیہ ‘ امریکا ‘ جرمنی ‘ فرانس وغیرہ امداد روانہ نہ کریں ۔ غریب اور متوسط طبقے کے پاکستانی امداد روانہ کریں ۔ دوسری جانب بلوچستان میں پانی کی شدید قلت ہے ۔ دو نہروں سے بلوچستان کو اس کے حق کے مطابق پانی نہیں مل رہا ہے ۔ کچھی کینال گزشتہ بیس سالوں سے زیر تعمیر ہے جس سے سات لاکھ ایکڑ زمین آباد ہونی ہے بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے اس لئے بعض علاقوں میں ٹیوب ویل اور زیر زمین پانی کا استعمال بے دریغ ہورہا ہے ۔ زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے بعض علاقوں میں یہ سطح اتنی گر گئی ہے کہ مشین اتنی گہرائی سے پانی نہیں نکال سکتا ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ان علاقوں خصوصاً کوئٹہ اور اس کے اطراف کے چار اضلاع میں صورت حال انتہائی خراب ہے اندیشہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں کوئٹہ اور اسکے اطراف کے اضلاع شدید خشک سالی کا شکار بن جائیں گے کیونکہ لا علم اور کوتاہ چشم کاشت کار بے دردی سے زمین سے پانی نکال رہا ہے اور وہ اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتا ہے ۔ حکومت کے پاس کوئی قانون نہیں کہ وہ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کو قانونی طورپر روکے ‘ بلکہ اس کے برعکس ان کے بجلی کے بل خود ادا کررہا ہے اور ان کی سرپرستی کررہا ہے کہ وہ زیر زمین پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں ۔ٹیوب ویل پر سبسڈی کا مقصد اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کہ اس پورے خطے کو ریگستان میں تبدیل کردیاجائے اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہے کہ وہ ٹیوب ویل مافیا کی سرپرستی کررہی ہے اس سے بچنے کا واحد حل پانی کا مناسب استعمال ہے ۔ زمین کی آبیاری کے لئے قطراتی نظام آبپاشی نافذ کیا جائے اور ساتھ ہی تمام ندیوں اور نالوں پر بند باندھے جائیں تاکہ لوگ ڈیم سے پانی حاصل کریں زیر زمین پانی کا استعمال بند کردیں ۔ ڈیم کی تعمیر سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے بلند ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس خطے خصوصاً کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح کے اضلاع پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ یہ علاقے ریگستان میں تبدیل نہ ہوجائیں ۔ اس کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کے لئے بین الاقوامی امداد حاصل کی جائے کیونکہ دوست ممالک بلوچستان کی امداد پر ہر وقت تیار پائے گئے ہیں ۔
بلوچستان میں خشک سالی اور قحط کا خطرہ
وقتِ اشاعت : October 23 – 2015