|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2015

واشنگٹن : وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ منصب سنبھالنے کے بعد تمام ہمسایہ ملکوں کوامن کاپیغام دیا لیکن بدقسمتی سے بھارت کا رویہ ہمیشہ سے مایوس کن رہا جب کہ اب بھارت میں مسلم مخالف اقدامات کشیدگی میں اضافہ کررہے ہیں۔واشنگٹن میں امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ عالمی امن کے لیے امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی خدمات قابل قدر ہیں، پاکستان امریکا کا دیرینہ دوست ہے جب کہ دورہ امریکا میں تمام رہنماؤں سے ملاقاتیں مثبت اور نتیجہ خیز رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے، جمہوریت مستحکم اور دہشت گردی ختم ہورہی ہے جب کہ عدلیہ اور میڈیا آزاد کردار ادا کررہے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2013 میں جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کواقتدارمنتقل ہوا اور پہلی بار تمام پارلیمانی جماعتیں غیرضروری احتجاج اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئیں جب کہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث ملک میں معاشی استحکام، غربت میں کمی اورجی ڈی پی میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری حکمت عملی متاثر کن رہی ہے، آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئی اور آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم ہوچکا اور اب یہ جنگ فیصلہ کن مراحل میں ہے جس میں سیکیورٹی فورسز سمیت 14 سال کے اعتزاز اورملالہ جیسے بچوں نے بھی پاکستان کے مستقبل کے لیے قربانیاں دیں۔ نوازشریف نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف کارروائی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے شروع کی اور اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جب کہ حکومت نے دہشت گردوں کے سلیپرسیلزکے خلاف بھی مہم شروع کر رکھی ہے۔امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ وزارت کا منصب سنبھالنے کے بعد تمام ہمسایہ ممالک کو امن کا پیغام دیا، انتخابات میں کامیابی پر نریندر مودی کو مبارکباد دی اور بطور ذمہ دار ریاست اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کررہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہماری مثبت کوششوں کے نتیجے میں بھارت کا رویہ ہمیشہ مایوس کن رہا جب کہ بھارت میں ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے پاکستان مخالف اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے سبب کشیدگی میں اضافے ہورہا ہے اور بھارتی رہنما بھی پاکستان مخالف بیانات دینے میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کنٹرول لائن ، ورکنگ باؤنڈری پر سیزفائر کی مسلسل خلاف ورزیاں کیں اور انہوں نے سیکریٹری خارجہ لیول کے مذاکرات بھی خود ہی منسوخ کیے جب کہ ہم بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن بھارت مذاکرات سے انکار کر کے اسلحے کی دوڑ میں شامل ہو رہا ہے۔افغانستان پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں جب کہ ہم نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے مثبت کردار ادا کیا اور دونوں فریقین کے درمیان مری میں ہونے والے مذاکرات کا دور کامیاب رہا لیکن بد قسمتی سے اس کے بعد ملا عمر کی موت کی خبر پھیلا کر مذاکرات کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے بدامنی پھیلانے کی کوئی وجہ نہیں لیکن پاکستان پرحملے افغانستان کے اندرطالبان کے زیرقبضہ علاقوں سے ہوتے ہیں کیوں کہ کالعدم تحریک طالبان کی جڑیں افغانستان میں ہیں تاہم افغانستان میں مسئلے کا فوجی حل نہیں نکالاجاسکا اور مستقبل میں بھی افغانستان کا فوجی حل نکلنے کی امید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے تحریک طالبان کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے تاہم طالبان کے خلاف کارروائی اور مذاکرات ایک وقت میں نہیں کرسکتے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ علاقائی تعاون کو بڑھانا ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس میں ہم کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں جب کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی صدر نے وزیراعظم نوازشریف کا شکریہ ادا کیا اور ان کو یادگاری شیٹ بھی پیش کی اس دوران وزیرداخلہ چودھری نثار، وزیردفاع خواجہ آصف، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، مشیرخارجہ سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور امریکا میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی بھی موجود تھے۔