سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر نے 2003 میں عراق پر حملے کے دوران کی گئی غلطیوں پر معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ اس بات میں ’صداقت کا عنصر‘ موجود ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ اسی کی وجہ سے وجود میں آئی۔
امریکی چینل سی این این سے انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عراق جنگ ہی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے وجود کا باعث بنی ہے، تو انھوں نے جواب دیا: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس بات میں کسی حد تک صداقت کا عنصر موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنھوں نے 2003 میں صدام حسین کو ہٹایا تھا، ان پر 2015 کے واقعات سابق وزیرِ اعظم نے بتایا کہ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے پر ’معافی مانگنا بڑا مشکل ہے،‘ اور یہ کہ اس کے بغیر عراق دوسرا شام بن جاتا۔ ان کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب سر جان چلکوٹ اس جنگ کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل کا نظام الاوقات پیش کرنے والے ہیں۔ ٹونی بلیئر نے کہا کہ اگرچہ عراق کے بارے میں ان کی حکمتِ عملی ناکام رہی لیکن اس کے بعد کی حکمتِ عملیاں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ان کے خیال میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانا ضروری تھا اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عراق بھی شام کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا۔ سابق وزیرِ اعظم نے جنگ سے قبل غلط جاسوسی کی اطلاعات اور جنگ کے بعد کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ناقص حکمتِ عملی پر معافی مانگی۔ بلیئر برطانوی پارلیمان اور جنگی تحقیقات کمیشن کے سامنے یہ باتیں دہرا چکے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’میں اس بات پر معافی مانگتا ہوں کہ جاسوسی معلومات غلط تھیں۔ میں اس کے لیے بھی معافی مانگتا ہوں کہ حکمتِ عملی تیار کرنے اور یہ سمجھنے میں غلطیاں ہوئیں کہ جب آپ حکومت بدل دیں گے تو کیا ہو گا۔‘
دوسری طرف سر جان چلکوٹ کی عراق جنگ کے بارے میں انکوائری رپورٹ اپنے اختتامی مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ انکوائری چھ سال قبل اس وقت کے وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے یہ کہتے ہوئے قائم کی تھی کہ اس پر ایک سال صرف ہو گا۔
ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ ٹونی بلیئر عراق پر چڑھائی کے ہر پہلو کا دفاع نہیں کریں گے، لیکن وہ جنگ میں شامل ہونے کے لیے معافی بھی نہیں مانگیں گے۔