ضلع خضدار بلوچستان کا وہ واحد ضلع ہے جسے اپنے جغرافیہ اور محل وقوع کی وجہ سے ایک جنکشن کی حیثیت حاصل ہے۔ گوادر ٹو کاشغر روڈ کا ایک حصہ خضدار ہی سے گزر کر براستہ رتو ڈیرو سندھ اور پنجاب سے جا ملتی ہے ۔ماضی قریب میں اگر خضدار میں امن و امان کا مسئلہ نہ ہوتا تو آج خضدار کی جو حالت ہے وہ مکمل تبدیل ہو چکا ہوتا ،موجودہ صوبائی حکومت نے خضدار کے سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لئے 21 کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کر دی اور آج خضدار کے مختلف سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر کام جاری ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر میں جو میٹریل استعمال ہو رہاہے کیا وہ خالص ہے ؟کون تعمیراتی کام کی نگرانی کر رہا ہے ؟حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی عوام کو سہولت دینے کے لئے سڑکوں کے لئے خطیر رقم جاری کر دی اور اگر آج ناقص میٹریل استعمال ہونے کی وجہ سے یہ سڑکیں ایک سال میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں تو ذمہ دار کون ہو گا ؟ہونا یہ چائیے کہ حکومت مقامی انتظامیہ اور عوا م مشترکہ طور پر ان سڑکوں کی تعمیر کی نگرانی کریں تا کہ عوام کا پیسہ ضائع ہونے سے بچ جائے ،اسی طرح خضدار کا شمار بلوچستان کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں کے لوگوں کا گزر بسر لائیو اسٹاک اور زراعت پر ہے خشک سالی اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اندرون خضدار (جھالاوان ،آڑنجی ،سارونہ ،مولہ ،کرخ ،) سمیت مختلف علاقوں میں لائیو اسٹاک کا جو ذخیرہ تھا وہ ختم ہونا شروع ہو ا ہے۔ حکومت اور محکمہ لائیو اسٹاک کی جانب سے ان علاقوں کے لوگوں کو وہ سہولیات نہیں دی گئیں جن کا سہار ا لیکر یہ لوگ اس صورتحال سے نمٹ سکیں اور ماضی کی طرح ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ دوسری جانب زراعت سے وابستہ لوگوں (زمیندارں ) کی صورتحا ل بھی اس سے مختلف نہیں ۔خیال کیا جا رہا تھا کہ دادو ٹو خضدار ہائی ٹرانسمیشن لائن کی تکمیل سے ضلع خضدار اور گردونواح کے اضلاع میں زراعت کے شعبے میں بڑی تبدیلی رونما ہو گی مگر زمینداروں کے مطابق کیسکو کی غلط منصوبہ بندی اور جانبدارانہ اقدامات کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح زراعت کا شعبہ بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ خضدار شہر میں یومیہ سولہ گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور دیہی علاقوں میں یومیہ دو گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ بعض زمینداروں کا کہنا ہے کہ کیسکو اہلکارمخصوص علاقوں میں زرعی ٹیوب ویل ٹھیکے پر اٹھا رکھے ہیں ان فیڈروں کو باقی فیڈروں کی نسبت زیادہ بجلی مہیا ء کی جاتی ہے حکومت اس شکایت پر تحقیقات کرے اور اگر یہ درست ہے تو اس کا ازالہ کرے ۔طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث ضلع خضدار میں زراعت کا شعبہ مکمل طو رپرتباہ ہو رہی ہے زمیندار لاکھوں روپے کا مقروض ہو چکے ہیں اور مجبوراً زمینداری کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں اس کے دیر پا اثرات خصوصی طور پر بلوچستان اور عمومی طور پر پورے ملک کی معیشت پر پڑ سکتی ہے ۔اسی طرح 1970 ء کی دہائی میں مکران اور گرد نواح کے طلباء ایف ایس سی ،اور بی اے ،بی ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے خضدار کا رخ کرتے تھے مگر آج خضدار میں تعلیمی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ۔ڈگری کالج خضدار میں طلباء کو وہ سہولیات میسر نہیں جو تعلیمی انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکیں اس ضمن میں طلباء کی شکایتیں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں کہ ڈگری کالج خضدار میں مختلف مضامین کی لیکچرارز نہیں ہیں ،کالج کی لائبریری میں کورس سمیت جنرل نالج کی کتابیں دستیاب نہیں ،لیبارٹری میں سائنس کا سامان نہیں اور کالج میں مجموعی طو رپر فرنیچر بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید پریشانی و مشکلات کا سامنا ہے ، وزارت تعلیم کو چائیے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے صوبے میں تعلیمی انقلاب کے اعلانات کو عملی شکل دینے کے لئے ڈگری کالج خضدار کے مسائل حل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں تا کہ طلباء کی توجہ تعلیم کی جانب مرکوز ہو سکے۔اس کے علاوہ یہ شکایتیں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ٹیچنگ ہسپتال خضدار میں،درجن بھر ڈاکٹروں اور پیر امیڈیکس کی اسامیاں خالی ہیں جن ڈاکٹروں کا خضدار تبادلہ کیا جاتا ہے وہ سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرکے اپنی تعیناتی خضدار سے منسوخ کرواتے ہیں ۔اس کے علاوہ ادویات کا کوٹہ آبادی کی مناسبت سے انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے ہسپتال میں مریضوں کو ادویات کے حصول میں شدید پریشانی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے حکومت کو چائیے کہ ٹیچنگ ہسپتال خضدار کے لئے ادویات کے کوٹہ کو دوگنا کر دیں ۔اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زیرتعمیر سڑکوں کی نگرانی ،لائیو اسٹاک کے بچاؤ اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، خضدار میں تعلیم اور صحت کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بہتر حکمت عملی تشکیل دے کر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
خضدار کے عوام کو درپیش مسائل،
وقتِ اشاعت : October 26 – 2015