|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2015

سی این این کو انٹر ویو دیتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر نے عراق حملے پر دنیا سے معافی مانگ لی اور یہ تسلیم کیا کہ برطانوی جاسوس اداروں کی اطلاعات غلط تھیں جس کے نتیجے میں آج داعش ایک طاقت بن کر ابھرا ہے اور اس نے دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ تاہم ٹونی بلئیر نے صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے پر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ امریکا اور برطانیہ نے اپنے مطلب اور مقاصد کے مطابق عراق اور اس کی حکومت کے خلاف اطلاعات جاسوسوں کے ذرائع سے حاصل کیں تھیں ، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسلحہ کے انسپیکٹروں نے عراق کے اسلحہ کا معائنہ کیا تھا اور دنیا کو یہ رپورٹ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دی تھی کہ عراق کے پاس بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں ۔ دنیا نے ان کی بات کو تسلیم کر لیا سوائے برطانیہ اور امریکا کے کیونکہ ان دونوں ممالک نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ ’’رجیم چینج‘‘ یا حکومت کی تبدیلی ضروری ہے اوروہ اس مقصد کے حصول کے لئے عراق پر حملہ آور ہوئے تھے ۔ اگر یہ دونوں طاقتور ممالک صدام کو ہلاک کرتے تو دنیا بھر کو اتنا نقصان نہ ہوتا اور نہ دنیا کو اتنے خطرات لاحق ہوتے ۔ عراق پر صرف اس لئے حملہ کیا گیا تھا کہ اس کو تباہ و برباد کیا جائے ، اس کو نیست و نابود کیا جائے خصوصاً ایسے وقت میں جب وہاں سے ریاست نے غربت کا خاتمہ کر لیا تھا اور عراق ترقی کی منزلیں طے کررہا تھا ۔ عراق پر حملہ میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ مشرق میں تمام ملک غریب رہیں اور ترقی کے منازل طے نہ کریں اور مغربی ممالک یا امیرممالک کے محتاج رہیں ۔ صدام حسین کا پیچھا کرکے ان کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، ساتھ ہی اسکی قائم کردہ یا تاریخی طورپر مضبوط عراقی فوج کو تباہ کردیا اور نئی فوج کھڑی کی جو اپنے ہی ملک کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکی ،اس پر سنی آبادی کے خلاف تادیبی کارروائی کے الزامات لگتے رہے ۔ ’’رجیم چینج‘‘ یا حکومت کی تبدیلی کا عمل صرف عراق تک محدود نہ تھا ، اس کو لیبیا اور شام تک پھیلایا گیا ۔ کرنل قذافی کا بھی پیچھا کرکے ان کو ہلاک کردیا گیا ۔ آج عراق‘ لبیا اور شام تباہ اور برباد ہوگئے ان کی بڑی آبادی بے گھر ہوگئی ۔ لاکھوں کا رخ مغربی ریاستوں کی طرف ہے ایک طوفان ہے جو یورپ پر حملہ آور ہوا ہے ۔ لاکھوں لوگ یورپ پہنچے ،مزید لاکھوں اس طرف جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ معاشی اور سیکورٹی کے اعتبار سے عراق‘ شام اور لیبیا تباہ ہیں ۔ رجیم چینج کی کہانی ایران کے لئے بھی سنی جارہی ہے ۔ امریکی حکومت نے ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لیے لاکھوں ڈالر کا سیکرٹ فنڈ رکھا تھاشاید وہ بھی استعمال ہو ا۔ تاہم یہ یقینی بات ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں کو مغربی ممالک اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں ’ ایران کا انقلابی کلچر اور پاکستان کی جوہری قوت مغرب کو پسند نہیں ہیں ۔ حالیہ سالوں میں ان مغربی ممالک کے تیور اچھے نظر نہیں آئے ، شاید وہ پاکستان اور ایران کو بھی اس ’’ حکومت کی تبدیلی ‘‘ کی پالیسی میں لائیں گے۔ ایران سے متعلق تو امریکا کی پالیسی واضح ہوگئی جب ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں اور ایران کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ تیل کی وسیع آمدنی تھی کہ ایران نے زبردست مزاحمت دکھائی اور ’’ مزاحمتی معیشت ‘‘ کو مضبوط تر کیا۔ مغربی ممالک کی جانب سے حکومتوں کی تبدیلی نے خطے کے امن کو مکمل طورپر تباہ کردیا ہے۔ مشرق میں دو بڑے ممالک مصر اور ترکی بچ گئے کیونکہ ان دونوں ممالک نے مغربی حکمرانوں کی پالیسی کو اپنایا ‘ پاکستان نے بھی ان کی پالیسی کی مخالفت نہیں کی اس لئے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ٹونی بلئیر کی معافی کو لے کرمشرق کے منظر نامے میں کسی تبدیلی کی توقع رکھنا عقل مندی نہیں البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ مغرب نے غلطی کی اور داعش کو پیدا کیا اور سابق عراقی مسلح افواج کے ارکان اس کی کمان کررہے ہیں ۔