پاکستان کے طول و عرض میں زلزلے نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی ۔ ابتدائی اطلاعات میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ۔ ہر لمحے ہلاک شدگان اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ املاک اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی بھی وسیع پیمانے پر ہوئی ۔ ابھی دور دراز علاقوں خصوصاً چترال اور شمالی علاقہ جات سے مزید اطلاعات آنا باقی ہیں کہ وہاں پر کس پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق کے پی کے اور اس سے ملحقہ افغان علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔ اسی طرح بنیادی ڈھانچہ ‘ مکانات ‘ سڑکیں اور پل تباہ ہوئے ہیں ۔ سڑکیں اور شاہرائیں بلاک اور بند ہوگئی ہیں ۔ لوگ دور دراز علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ چترال تو برف باری کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے کٹ کر رہ گیا ہے شمالی علاقوں میں پہاڑی تودے گرنے سے شاہراہیں بند ہوگئیں۔ اس زلزلے میں سرکاری عمارتوں اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے ۔ بلا شبہ موجودہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی ہے جو ملک کے طو ل و عرض میں عام زندگی کو متاثر کیا ہے ۔ اس بار حکومت کا رد عمل مثبت اور تیز تھا ۔ فوج اب کسی آرڈر یا حکم نامے کا انتظار نہیں کرے گی اور آرمی چیف نے فوجیوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ فوری لوگوں کی مدد کو پہنچ جائیں ۔ اپنے نزدیک ترین آبادی میں ریسکیو اور راحت کاری کا کام بغیر کسی حکم کے انتظار کے شروع کردیں ۔ دوسری طرف شہری انتظامیہ بھی مستعد نظر آئی ہے اور چابکدستی سے ہر کام سر انجام دیتی نظر آتی ہے ۔ این ڈی ایم اے تاہم عوام کی توقعات پر اتر نہ سکی ۔ اس کے قیام کو دس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔ یہ ادارہ ایک کاغذی تنظیم کی طرح کام کرتا نظر آرہا ہے ۔ اسی طرح اس کے صوبائی ادارے بھی غیر فعال ہیں اور وہ بھی لوگوں کی توقعات پر پورے نہیں اترے ۔ بلوچستان کی صورت حال میں صوبائی ادارے کے صوبہ بھر میں کئی بڑے بڑے مراکز ہونے چائیں جو کسی ناگہانی آفت کی صورت میں سرعت سے خدمات سرانجام دیں ۔ ان تمام بڑے بڑے مراکز میں ہر طرح کی سہولیات ہونی چاہئیں ۔ یہی صورت حال دوسرے صوبوں کا ہے ۔ خصوصاً کے پی کے جہاں دور دراز علاقوں میں زیادہ تباہی کی اطلاعات آرہی ہیں ۔ پہاڑی تودہ گرنے سے سڑکیں اورشاہراہیں بند ہونے کی صورت میں یہ صوبائی ادارے بھی ناکارہ ثابت ہوجاتے ہیں کئی دن تو سڑکیں اور شاہراہیں کھولنے میں لگ جاتے ہیں تب جا کر راحت کاری کا کام شروع ہوتا ہے ۔اس دوران زیادہ ہلاکتیں ہوجاتی ہیں ضروری ہے کہ راحت کاری کیلئے ادارے دور دراز علاقوں میں اپنے موثر مراکز قائم کرسکیں ۔ ہمارے ملک میں فوج واحد ادارہ ہے جو ملک کے دور دراز علاقوں میں موجود ہے اور ناگہانی صورت حال میں یہ فوری کارروائی کرتی ہے جس سے متاثرین کو راحت ملتی ہے ۔ ہر بار ناگہانی آفت کے دوران فوج ہی سب سے زیادہ راحت کاری میں مصروف دکھائی دیتی ہے اور شہری انتظامیہ تماش بین نظر آتی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس چند ایک سپاہی ہوتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہونا یہ چائیے کہ ہر علاقے میں مناسب تعداد میں اہلکار ہوں اور وہ ہر طرح کے وسائل سے لیس ہوں۔ان کے پاس بڑے بڑے بلڈوزر بھی ہوں تاکہ ہر طرح کی ملبے کوبل ڈوزر سے ہٹادیں اور ضروری اشیاء پہنچانے کے لئے ٹرک مختلف محکموں کے پاس ہوں جن کو ہنگامی صورت حال میں یکجا کیا جائے اوران کو راحت کاری کے لیے استعمال میں لایاجائے ۔ مختلف شہری ادارے مختلف ساز و سامان الگ الگ رکھیں تاکہ ان کو ایک رابطے کے تحت استعمال میں لایاجائے چونکہ ایسا کوئی انتظام نہیں ہے یہ سب کام فوج نے کرنا ہے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں راحت کاری کرنی ہے پہلے شاہراہوں کو ٹریفک کے لئے کھولنا ہے اور بعد میں ضروری اشیاء اور سازو سامان دوردراز علاقوں میں پہنچانا ہے صوبائی ادارے صرف کھانے پینے کی اشیاء گودام میں رکھتے ہیں جو وقت گزرنے کے بعد ضائع ہوجاتے ہیں اور ناگہانی آفت میں یہ خوردنی اشیاء کسی کام نہیں آتے ۔ اس لئے ہر بار بازار سے اشیاء خریدنی پڑتی ہیں اور ان علاقوں میں پہنچانی پڑتی ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی تباہی
وقتِ اشاعت : October 28 – 2015