بھارت یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے ۔ یہ ایک سیاسی بیان ہے اور اسکا مقصد عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے اگر اس میں صداقت ہوتی اور کشمیری لوگ اس کو تسلیم کر لیتے تو کشمیر میں کب کا امن قائم ہوچکا ہوتا۔ مگر آئے دن کے ہنگامے ‘ بھارت کے خلاف احتجاج اور کشمیریوں کے جلوس میں پاکستان کا پرچم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا اور آج تک اس کی ہر طرح سے مزاحمت کرتے آرہے ہیں ۔ اس مزاحمت کو 68سال پورے ہوچکے ہیں جب ڈوگرہ راج نے بھارت کے ساتھ شمولیت کایک طرفہ اعلان کیا ۔ عوامی رائے عامہ کو نظر انداز کرکے یہ فیصلہ کیا وہ بھی طاقت کے زور پر ۔ پہلے بھارتی افواج نے کشمیر اور خصوصاً سرینگر پر قبضہ کر لیا اور بعد میں مہاراجہ کشمیر پر دباؤ ڈالا کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان خوف و خطر کی وجہ سے کرے اور مسلم اکثریت کو نظر انداز کرے ۔ بھار ت کا دوہرا معیار تھا جو نا گڑھ کے مسلمان فرما نروانے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو بھارت اور عالمی طاقتوں خصوصاً برطانیہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور وجہ یہ بتائی کہ اکثریتی آبادی مسلما ن نہیں، ہندو ہے ۔لہذا جونا گڑھ بھارت کا حصہ رہے گا۔ مگر جب کشمیر کی باری آئی تو ہندو مہاراجہ کے فیصلے کو تسلیم کر لیا اور مسلم اکثریتی آبادی کو نظر انداز کیا اور یہ کہا گیا کہ مہاراجہ کا فیصلہ قابل قبول ہے۔ بھارتی قبضے کے بعد سے لے کر آج تک کشمیر میں امن قائم نہ ہوسکا ۔آئے دن مزاحمت کی خبریں مقبوضہ وادی کشمیر کے حصوں سے آرہی ہیں، کہیں کہیں پر مسلح جدوجہد ہے جس کے ذریعے کشمیری مجاہدین بھارتی افواج ‘ پیرا ملٹری فورسز اور پولیس سے لڑ رہی ہیں تو کہیں پر امن اور سیاسی احتجاج زوروں پر ہے اور دنیا کو پیغام دیا جارہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے ۔ فوجی قوت کا بے دریغ استعمال ہے اور لوگوں کی آزادانہ رائے یہ ہے کہ وہ بھارتی تسلط کے نہ صرف مخالف ہیں بلکہ اس کے خاتمے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ کشمیر مسئلے کے اصل فریق کشمیر کے عوام ہیں پاکستان صرف ان کے مطالبات کی حمایت کررہا ہے ۔ اور بین الاقوامی طورپر ایک فریق ہے کیونکہ روز اول سے کشمیریوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں بھارت میں نہیں ۔ اس لئے 68 سال بعد بھی بھارت عوامی رائے عامہ کو تبدیل نہ کرسکا ۔ بھارت نے دباؤ میں آ کر یہ تسلیم کر لیا تھا اور اقوام متحدہ کی قراردادیں قبول کرلی تھیں کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کرائے گا اور بین الاقوامی نگرانی میں کرائے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے وعدہ خلافی کی اور اب اس سے بالکل انکاری ہے اور وہ دعویٰ کررہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ اس بات کو تسلیم کرانے کے لئے بھارت پاکستان پر آئے دن فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے ، سرحدی خلاف ورزیاں اور پاکستانی علاقوں پر گولہ باری اسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہڑپ کیاجائے اور پاکستان کو اس بات سے باز رکھا جائے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت کرے اور بین الاقوامی رائے عامہ ہموارکرے ۔ چنانچہ بھارتی دباؤ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان کی جانب سے مزاحمت جاری ہے اور مسلسل گولہ باری کا جواب دیا جارہا ہے جس سے بین الاقوامی رائے عامہ پریشان ہے کہ پور ے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے بلکہ خطے میں جنگ کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر ہے ۔ کشمیر میں سیاسی اور مدافعتی عمل جاری ہے اور لوگ بھارت کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے ۔
کشمیر کا تصفیہ طلب مسئلہ
وقتِ اشاعت : October 30 – 2015