|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2015

بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پر لوگوں کا انحصار صرف اور صرف سرکاری ملازمت یا روایتی کھیتی باڑی پر ہے ۔ گزشتہ 68سالوں میں ریاست کی جانب سے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ بلوچستان کو معاشی لحاظ سے ترقی دی جائے ۔ صدیوں سے مکران کھجور کی پیداوار میں مشہور ہے اور بہترین کوالٹی کی کھجور پیدا ہوتی ہے مگر آج دن تک وہاں کھجور صاف کرنے اور پیکنگ کا پلانٹ نہ لگ سکا جبکہ صوبہ ہر سال ترقی پر 54ارب روپے خرچ کررہا ہے ۔ گزشتہ پانچ سالوں میں بلوچستان کی ترقی پر 250ارب روپے کہاں گئے کون بھلا کھا گیا سب کو معلوم ہے کہ سیاسی شعبدہ بازوں نے یہ بڑی رقم ہڑپ کر لی ہے اور بلوچستان ویسے ہی پسماندہ ہے ۔ واشک ضلع میں لیویز کی چند ایک آسامیوں کے لئے سینکڑوں امیدوار میدان میں آگئے کسی صاحب نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ملازمتوں کے انتخاب میں شفافیت کا عنصر نہیں ہے۔ عدالت نے تا حکم ثانی پابند لگا دی کہ ان خالی ملازمتوں پر تقرریاں نہیں ہوسکیں گی تاوقتیکہ عدالت عالیہ اس پر کوئی فیصلہ نہ کرے چند لیویز کی آسامیوں کی بہت زیادہ اہمیت صرف صوبے بھر میں خطر ناک حد تک بے روزگاری کی وجہ سے ہے ۔ورنہ علاقے کا معتبر جس کی سفارش کرتاانتظامیہ ان کو لیویز میں بھرتی کر لیتا ۔ اب لیویز کی پوسٹوں پر تقرری کو عدالت عالیہ میں اس لئے چیلنج کیا گیا ہے کہ بے روزگار ی عام ہے اور روزگار کا ذریعہ واحد سرکاری ملازمتیں ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ روایتی طورپر ریاست کی وہی پالیسی اپنائی گئی جس پر برطانوی استعمار کار بند تھا اور اس نے بلوچستان پر سو سال براہ راست حکومت کی ۔ اس کی پالیسی کا ایک اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ بلوچستان کو صرف سیکورٹی کا خطہ بنا کر رکھا جائے تاکہ روس‘ افغانستان اس خطے پر قبضہ نہ کر سکیں ۔ چنانچہ برطانوی استعمار پوری صدی حالت جنگ میں رہا ۔ اس کو افغانستان اور روس کی طرف سے خوف تھا ۔ نیز یہ کہ بلوچ مزاحمت اور اس کی آزادی کی جدوجہد پوری ایک صدی پر محیط ہے ۔ اس دوران برطانوی افواج نے 15بڑے اورد رمیانہ فوجی آپریشن کیے اور بلوچوں کے خلاف 200سے زیادہ چھوٹی اور بڑی جنگیں لڑیں ۔ اس نے معاشی ‘ معاشرتی اور سماجی ترقی کو نظر انداز کیا ۔ حکومت پاکستان نے بھی کم و بیش یہی پالیسی اختیار کی ہے ، موجودہ کارروائی پانچویں بار ہورہی ہے ۔ ریاست کو اتنے بڑے ساحل پر ایک عملی بندر گاہ بنانے کا خیال نہیں آیا نہ ہی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ضلعی ترقی دی گئی اور نہ معدنیات کو استعمال کیا گیا ۔ سوئی گیس کو بھارت کے سرحد پر شکر گڑھ ‘ نارو وال تک پہنچایا گیا مگر بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار کو سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ۔ 1980ء کی دہائی میں چند ایک فیکٹریاں حب میں تعمیر ہوئیں ۔ اس میں بھی پیسہ سرمایہ کاروں اور کارخانے داروں کا زیادہ تھا کیونکہ ٹیکسز میں رعایت اور دوسری مراعات تھیں اور کراچی کے کارخانے داروں نے ان سہولیات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اپنا ایک اضافی پلانٹ حب میں لگایا جو صرف سائیٹ کے علاقے سے چھ میل کے فاصلے پر تھا اس لئے سرمایہ کاری حب میں ہوئی ۔ کارخانے دار اپنے ساتھ مزدور بھی کراچی سے لایا تھا اس کا فائدہ بلوچستان اور اس کے عوام کو نہ ہوا ۔ جب ٹیکس میں چھوٹ ختم ہوگئی اور حکومت نے مراعات واپس لے لیں تو یہ تمام کارخانے پنجاب میں لے گئے جہاں ان کو ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی گئیں ۔ حب میں صنعتی علاقے سے نہ بلوچستان حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی لوگوں کو روزگار ملا ۔ مختصر الفاظ میں بلوچستان کو دانستہ پسماندہ رکھا گیا اس لئے لیویز اور اساتذہ کی بھرتی کے لئے بہت بڑی تعداد میں درخواستیں بے روزگار نوجوان دے ر ہے ہیں اور ہر سال صرف چند ہزار کو سرکاری ملازمتیں مل جائیں گی ۔ اس سے غیر ترقیاتی اخراجات کا موجودہ عجم ستر فیصد سے بڑھ جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس بھی بلوچستان کی صنعتی اور معدنی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور سیاست میں الفاظ کا کھیل جاری رہے گا۔