|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2015

دنیا بھر میں سیکورٹی افواج کے بعد صحافیوں کی جانوں کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ خطرہ ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا بھرکے اکثر ممالک خصوصاً کم ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں پاکستان میں غیر سنجیدہ اور صحافت کے پیشہ میں کم تر معیار کے میڈیا پرسن بعض ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں ۔ کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں بعض واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں کہ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں میڈیا پرسن ہلاک ہوگئے ۔ جوں ہی میڈیا پرسن جائے حادثہ پر پہنچے دوسرا حادثہ ہوگیا۔ کوئٹہ میں ایک واقعہ سول اسپتال کے احاطے میں پیش آیا جہاں پر دہشت گردوں نے دوسرا بم نصب کررکھا تھا ۔صحافی حضرات اور دیگر رشتہ داروں کے پہنچنے کے بعد دوسرا دھماکہ یا بم حملہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوں ،اس طرح کوئٹہ میں مری آباد کے علاقے میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا اور اس میں صحافی، میڈیا پرسن کے علاوہ قریبی دوست اور رشتہ دار ہلاک ہوگئے ۔ اس کی بنیادی وجہ ٹی وی مالکان کی دوڑ تھی کہ وہ بریکنگ نیوز حاصل کریں اور مخالف ٹی وی چینل سے سبقت لے جائیں۔ ان ہلاکتوں کی صرف سینئر پروڈیوسر حضرات اور نیوز ایڈیٹر ان ذمہ دار ہیں ۔ مگر سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پریشر گروپس کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکومتی ادارے صحافیوں کے قتل میں برابر کے ذمہ دار ہیں ۔کوئٹہ میں ارشاد مستوئی کے ساتھ دو دوسرے صحافی یا ادارے میں کام کرنے والے لوگ حملہ میں شہید کیے گئے۔ دیدہ دلیری یہ ہے کہ دفتر کے اندر گھس کر ان کو گولیاں ماری گئیں ۔عام حالات میں قاتل کو اتنا دلیر اور بہادر نہیں دیکھا گیا کہ اس کو جوابی حملہ یا گرفتار ہونے کا ڈر نہ ہو ۔ یہ نا ممکن بات ہے کہ پریشر گروپ کا کوئی قاتل یا دہشت گرد اتنی زیادہ رسک لے اور وہ اپنی گرفتاری کی پروا نہ کرے اور قتل عام کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ بھرے بازارمیں کامل یقین، تسلی اور بغیر کسی گھبراہٹ کے چلا جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ گھنٹوں زخمی حالت پڑے رہنے کے بعد ہی ان کو اسپتال لے جانے کی دانستہ کوشش نہیں کی گئی ۔ لاش بہت دیر بعد اٹھائی گئی جب یہ تسلی ہوگئی کہ صحافی حضرات دم توڑ گئے ہیں ۔ بعض شہادتوں سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ارشاد مستوئی قاتل کو شناخت کر لیا تھا اور اس نے قاتل کو دفتر آنے کے بعد خوش آمدید بھی کہا تھا تاہم ان اطلاعات کی تصدیق نہ ہوسکی ۔ بہر حال دہشت گردوں کے علاوہ صحافیوں کا کوئی دشمن نہیں ہے ۔ عام حالات میں صحافیوں اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں ۔ اکثر قتل میں حکومتی اہلکاروں ملوث نظر آتے ہیں جہاں سیاسی اور دوسرے تنازعات ہیں یا تنازعہ کا زون ہے وہاں پر صحافیوں کو صرف اوصرف خبروں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ۔آزادی اخبار کے دو صحافیوں کو خضدار شہر کے اندر دن دہاڑے قتل کیا گیا ۔ دونوں واقعات میں پریشر گروپ نے ذمہ داری قبول کی لیکن بلوچستان کے اکثر واقعات میں پریشر گروپ ملوث نہیں ہیں اس سے قبل چشتی مجاہد کو بھی بی ایل اے نے قتل کیا تھا اور اس کی ذمہ دری قبول کی تھی ۔ ان تین واقعات کے بعد صحافی برادری نے زبردست احتجاج کیاتھا جس کے بعد سے پریشر گروپس کے خلاف شکایات کم ہوگئیں اور میدان صرف اور صرف حکومتی اہلکاروں کے ہاتھ میں رہا ۔ صحافی رہنما سلیم شاید کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں حالیہ سالوں میں 47صحافی قتل کیے گئے ان میں زیادہ اہم ترین صحافی چشتی مجاہد‘ ارشاد مستوئی ‘ حاجی وصی شامل تھے ۔ بہر حال انگلی کا رخ حکومتی اہلکاروں کی طرف ہے لہذا حکومت زیادہ قوت برداشت کا مظاہرہ کرے ۔