|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2015

بلوچستان اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا عمل کبھی کا مکمل ہوچکا جب کہ سندھ اور پنجاب میں یہ عمل اب شروع ہوگیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 120اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے جس میں ملک کی طرح حزب اختلاف کو واجبی نشستیں ملیں ۔ ہمارے ملک میں سیاسی رواج اور کلچر ہے کہ ہم حکومت اور حکمران پارٹی کو ہی ووٹ ڈالتے ہیں جب حکومت کی کوئی پارٹی نہ ہو تو زیادہ مقبول جماعت کو ووٹ ڈالتے ہیں ۔ یہی کچھ 1970ء کے انتخابات میں ہوا ۔ دو مقبول پارٹیوں عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں انتخابات میں کامیابیاں حاصل کیں ۔ اگر کوئی پارٹی کسی بھی صوبے یا خطے میں حکمران ہو تو ہم روایات کے مطابق حکمران جماعت ہی کو ووٹ ڈالتے ہیں لہذا پی پی پی اور ن لیگ کو زیادہ خوش نہیں ہونا چائیے ۔ اس طرح باقی مرحلوں کے انتخابات میں بھی یہی دو حکمران جماعتیں مزید کامیابیاں حاصل کریں گی ۔ اب تو سندھ اور پنجاب میں جیت کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا بلکہ ان کی جیت پہلے کے مقابلے میں دو گنی ہوسکتی ہے۔ ہمارے وزیر اطلاعات ان انتخابات اور ان کے نتائج سے بہت زیادہ خوش ہیں اور فرماتے ہیں کہ پنجاب کو لاکھوں کی تعداد میں خادمین مل گئے جو ’’ خادم اعلیٰ پنجاب ‘‘ کے ماتحت کام کریں گے۔ مقامی حکومتوں کا معاملہ اختیارات کی تقسیم کا ہے گزشتہ 68سالوں سے اختیارات وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ کے پاس ہیں ۔ باقی ملک کے تمام باشندے ‘ خواہ کوئی ہو، ان کے ماتحت اور زیر نگیں ہیں جمہوریت کا نام بد نام کیا جارہا ہے جمہوریت نام کی کوئی چیز پاکستان میں موجود نہیں ہے ۔ ملک میں دس سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے وہ صرف اس لئے کہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں حکمران تقسیم اختیارات کے مخالف ہیں یہاں تک کہ ایم پی اے حضرات نے بلدیاتی انتخابات کے خلاف اپنی نفرت کابھرپور انداز میں اظہار کیا تھا ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس سے ترقیاتی فنڈ زتقسیم ہوں گے۔ایم پی اے کو ترقیاتی فنڈ کم ملے گا اس لئے بلدیاتی ادارے مکمل طورپر فعال نہیں ہوسکے تاکہ بجٹ میں ان کے لئے الگ رقم مختص نہ ہو ۔ اصولی طورپر ترقیاتی فنڈ کا پچیس فیصد قانون کے مطابق بلدیاتی ادارے خرچ کریں گے ۔ ہم یہاں یہ مطالبہ کرنے میں مکمل طورپر حق بجانب ہیں کہ بلدیاتی ادارے نہیں بلکہ مکمل طورپر شہری حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ مقامی حکومتیں مکمل طورپر آزاد اور خود مختار ہوں ۔ ایم پی اے حضرات صرف اور صرف قانون سازی کریں، وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں اس لئے صرف قانون سازی کریں، ترقی اور منصوبہ بندی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انتظامی معاملات میں مداخلت ان کا حق ہے ۔جہاں تک ترقیاتی عمل کا تعلق ہے مقامی حکومتیں مقامی طورپر منصوبہ بندی کریں اور عوام الناس کو بہترین شہری سہولیات فراہم کریں ۔ ماحول کا تحفظ کریں ۔ آب نوشی ، پانی کی نکاسی ‘ صحت و صفائی ‘ گندگی کی صفائی اور ان کو ٹھکانے لگانے کا کام، اگر اس کے لئے پلانٹ لگائے جائیں تو بہتر ہوگا۔ گزشتہ زمانے میں پرائمری اسکولوں کی نگرانی بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کے ذمے تھا ۔ اس بار پھر پہلے پرائمری تعلیم مقامی حکومتوں کے حوالے کیے جائیں تاکہ بھوت اساتذہ اور بھوت اسکولوں کا مسئلہ حل ہو ۔ اس کے بعد سیکنڈری اسکول کی تعلیم بھی مقامی حکومتوں کے حوالے ہو ۔ ان میں تمام مدارس کو ضلعی حکومتوں کے ماتحت کیاجائے اور ان کی الگ شناخت ختم کی جائے تاکہ دینی مدارس کا کوئی سیاسی استعمال نہ ہو اور اس کو وسیع تر تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے ۔ بہر حال صوبائی حکومتوں کے اختیارات کو کم کیاجائے اور یہ اختیارات ضلعی حکومتوں کو دیا جائے ۔اس کے ساتھ یہی وفاقی حکومت کے ساتھ بھی ہو یعنی اس کے اختیارات کو بھی محدود کیاجائے ۔ خصوصاً دفاع‘ خارجہ پالیسی ‘ کسی حد تک رسل و رسائل ‘ تاکہ ٹرین اور ہوائی جہاز چلائے جائیں ۔ اگر حکومت ریاستی اثاثہ فروخت کرنا چاہتی ہے جیسے ریلوے اور پی آئی اے کی پرائیوٹائزیشن ، ایسا کرنے کی وفاقی حکومت کو کوئی اختیار نہیں ہونی چائیے ایسے تمام اثاثہ جات کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کیا جائے، رسل و رسائل کو بھی صوبوں کے حوالے کیاجائے و فاقی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کم سے کم ٹیکس لگائے جائیں ۔ زیادہ ٹیکس کے اختیارات صوبوں اور ضلعی حکومتوں کے پاس رہیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔