|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2015

کوئٹہ: گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل سے خطے اور خاص طور پر بلوچستان میں جس بڑے پیمانے پر اقتصادی وسماجی تبدیلیاں رونما ہوں گی ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے تجارت کے لئے سمندری راستے کے بجائے زمینی راہداری کی تعمیر پر توجہ دے کر ترقی وتجارت کے نئے تناظر کو متعارف کرایا ہے جس سے روایتی شاہراہ قراقرم کی جگہ نئے روڈ بیلٹ منصوبے سے نہ صرف ہمارا خطہ پوری طرح مستفید ہوگا بلکہ دنیا کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک مربوط کرنے کے مقصد سے تاریخی پیشرفت بھی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں گذشتہ روز بلوچستان کے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کورس لاہور کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جنہوں نے گورنرہاؤس کوئٹہ میں ان سے ملاقات کی۔ گورنر نے لاہور سے آئے ہوئے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں بلوچستان میں جاری ترقیاتی عمل خاص طور پر تعلیمی ترقی اور امن وامان کی بہتری کے لئے موجودہ حکومت کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے ترقی کے عمومی عمل میں تعلیم کی کلیدی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس شعبے کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے۔ پہلی بار موجودہ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں غیرمعمولی اضافہ کرکے اسے26فیصد تک بڑھادیا۔ گورنر نے کہا کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو صوبے میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی اور ترقیاتی عمل کے لئے ضروری سازگار فضاء موجود نہ تھی۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ صوبائی حکومت کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں صورتحال میں قابل ذکر بہتری آئی ہے تاہم اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن کا قیام اس وقت بامعنی ہوتا ہے جب معاشرے کا ہرشخص خوف اور دہشت کی فضاء سے خود کو آزاد محسوس کرے اور اپنی مرضی واختیار سے تمام معاشرتی ومعاشی سرگرمیوں میں اپنا بھرپور کردار آزادانہ طور پر ادا کرسکے۔ انہوں نے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو خوش آئند قراردیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور برکس (Brics) میں پاکستان کی مکمل رکنیت کی منظوری دی جاچکی ہے اور اگلے سال تک پاکستان ان اہم ایشیائی تنظیموں کا باقاعدہ رکن بن جائے گا جس سے اس بات کی وضاحت ہوگئی ہے کہ ہم ایشیائی تعاون کے تناظر میں اپنی پالیسیاں کامیابی سے آگے بڑھارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے کہا کہ بلوچستان کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ملک میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کی حیثیت حاصل ہے اور یہ ادارے جمہوریت کے تسلسل اور فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نچلی سطح پر موجودہ منتخب عوامی نمائندے عوام کی ضرورت کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی درست نشاندہی کرکے وزراء اور دیگر ذمہ دار حکام کو عوام کے حق میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی اور بلدیاتی نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ گورنر بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان کی آبادی بکھری ہوئی اور رقبہ وسیع وعریض ہے لہٰذا یہاں ترقیاتی عمل کے بنیادی ڈھانچے خاص طور پر مواصلات کے شعبے میں کام کرنا ضروری بھی ہے اور مشکل بھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو خصوی تعاون کرنا چاہئے اور شاہراہوں کی تعمیر اور توانائی کے مسائل کے حل میں وفاق کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے کہا کہ مستقبل میں بلوچستان کے حکام کو انتظامی ومالی امور اور منصوبہ بندی کے شعبے میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے استعداد کار میں اضافہ کے خصوصی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ جو وفاقی حکومت پوری کرسکتی ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فعال تعاون اور اشتراک کے ساتھ مسائل ومشکلات کے حل میں کامیاب ہوں گی۔ آخر میں گورنر بلوچستان اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ لاہور کے وفد کے قائد میجر (ر) عتیق ارشد کے درمیان شیلڈز کا تبادلہ بھی ہوا۔