|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2015

لالہ افضل خان بلا شبہہ اس ملک کی ایک عظیم شخصیت تھے ملک کی شورش زدہ سیاست میں ا نہوں نے ہمیشہ مثبت خدمات سرانجام دیں ۔ وہ ایک مقبول رہنما تھے اور حقیقی معنوں میں لوگوں کے خادم تھے ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ سیاسی کارکن بالخصوص مخالف پارٹی کے کارکنوں کا زیادہ عزت اور احترام کرتے تھے کبھی کسی بھی شخص سے ان کو تند اور تیز آواز میں بات کرتے ہوئے نہیں سنا گیا ۔ حکمران ہمیشہ افضل خان کی مقبولیت سے خائف تھے اسی وجہ سے ان کو بھی حیدرآباد سازش کیس کا ملزم بنایا گیا ۔وہ آخر وقت تک حیدر آباد جیل میں بلوچ اور پختون رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ رہے اور ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کااظہار کیا۔ اس وقت کے حاکم اور جابر ذوالفقار علی بھٹو کی ان تمام سازشوں کو ناکام بنایا جو انہوں نے بلوچ اور پختونوں کے درمیان اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کی بلوچ اور پختون سیاسی کارکنوں کے لئے محبت بھر پور تھی ۔ کوئی سیاسی قیدی سر درد میں مبتلا ہوتا لالہ افضل خان اورغوث بخش بزنجو اور قصور گردیزی فوراً تیمار داری کیلئے پہنچ جاتے اور ان کا خاص خیال رکھتے ۔ لالہ افضل کے ولی خان کے ساتھ اختلافات صرف نسیم ولی خان کی سیاست کی وجہ سے تھے ۔ لالہ افضل خان جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے مخالف تھے اور یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی الگ پارٹی بعد میں بنالی ۔ بلوچستان میں بعض پختون رہنماؤں کو انتہائی عزت اور احترام سے دیکھا جاتا رہا ان میں لالہ افضل خان ،ارباب سکندر خان خلیل ‘ امیر زادہ خان شامل تھے ۔ یہ تینوں حضرات بلوچ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہمیشہ بحث و مباحثہ میں ملوث پائے گئے تھے ان تینوں رہنماؤں کی وجہ سے اس وقت نیشنل عوامی پارٹی کی مقبولیت پورے ملک میں عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ ان کی قربانیاں ،ان کی عوام اور جمہوریت سے محبت اور انسانی آزادی کا احترام وہ بنیادی وجہ تھی کہ جس نے نیشنل عوامی پارٹی کو ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بنا دیا تھا جس کو صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں حکومت ملی، جمعیت علماء اسلام مولانا مفتی محمود ان کے اتحادی تھے ۔