وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے ان خدشات کی نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان کا ایک وسیع علاقہ بنجر ہو جائے گا اگر وفاقی حکومت نے ان علاقوں میں پانی کے وسائل کو ترقی نہیں دی ۔ ان خدشات کا اظہار واپڈا کے چئیرمین کے ساتھ ایک ملاقات میں کی گئی ۔ واپڈا کے چئیرمین کوئٹہ تشریف لائے تھے اورانہوں نے کیسکو افسران کے ساتھ مل کر وزیراعلیٰ سے بجلی اور پانی کے مسائل پر بات چیت کی ۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ لورالائی سے لے کر خضدار تک پورا علاقہ بنجر زمین بن جائے گا اگر اس پورے خطے میں پانی کے وسائل کو ترقی دینے کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ ان علاقوں میں نہری نظام نہیں ہے پہلے لوگ کاریزات سے زمینداری اور کھیتی باڑی کرتے تھے ۔ حالیہ سالوں میں آبادی میں اضافہ، پھر افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آمد سے آبادی کی بوجھ میں اضافہ ہوگیا اور کاشتکار وں کو ٹیوب ویل لگانے پڑے جس سے کاریزات خشک ہوگئے اور زیر زمین پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھ گیا، پانی بہت ہی نچلی سطح پر چلا گیا ہے ۔ بعض علاقوں میں یہ ایک ہزار فٹ سے بھی زیادہ نیچے چلا گیا ہے جس کے لئے زیادہ بڑے پمپ درکار ہونگے اور بورنگ زیادہ گہرا ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زیر زمین پانی انسانی پہنچ سے باہر ہوجائے گا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو ان علاقوں سے نقل مکانی کرنی پڑے گی جو ایک بڑا انسانی المیہ ہوگا۔ وفاقی حکومت نے کبھی بھی اپنی ذمہ داریاں بلوچستان میں پوری نہیں کیں ’ بلوچستان کا پہلا ڈیم تعمیر ہوا وہ حب ڈیم تھا جو صرف کراچی کے عوام کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اس میں بلوچستان کے عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ اس کی تعمیر کے بعد وفاقی حکومتوں کا یہ اٹل فیصلہ تھا کہ بلوچستان میں کوئی بھی ڈیم تعمیر نہیں ہوگا تاوقتیکہ بلوچستان کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت نہیں کرے گا ۔ واقعی کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا اور بلوچستان کو کالا باغ ڈیم تعمیر کی مخالفت کی زبردست سزا دی گئی ۔ اس کے ساتھ کچھی کینال کی تعمیر میں دہائیوں لگا دئیے گئے ۔ دریائے سندھ کی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا جس میں شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا ۔ صوبوں کے درمیان پانی کا تقسیم کا معاہدہ ہوا مگر اس پر نیک نیتی سے عمل درآمد نہ ہوا ۔ بلوچستان کو اس معاہدے کی رو سے دریائے سندھ کے نظام سے دس ہزار کیوسک اضافی پانی ملنا تھا وہ آج تک نہیں ملا ،وہ پانی سندھ اور پنجاب میں بد نیتی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ۔ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں تھا اور نہ واپڈانے کبھی اس پر سوچا یا منصوبہ بنایا ۔ لہذا گزشتہ 24سالوں میں دریائے سندھ کا اضافی پانی نہ مل سکا ۔ اتنے سالوں تک کچھی کینال جان بوجھ کر تعمیر نہیں کیا گیا تاکہ بلوچستان کو اضافی پانی نہ ملے اور بلوچستان غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل نہ ہو سندھ او رپنجاب کا خوراک کے معاملے میں محتاج رہے ۔ خدا خدا کرکے کچھی کینال کا پہلا مرحلہ تکمیل کے مراحل میں ہے اور اس سے بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔ مجموعی طورپر کچھی کینال سے سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین سیراب ہوگی ۔ یہ منصوبہ ممکن ہے کہ ایک صدی میں مکمل ہو کیونکہ بلوچستان کے تمام منصوبوں کو وفاق میں اہمیت حاصل نہیں ہے ۔ ہمارے نمائندے جو سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود ہیں ان کو ذاتی مراعات سے دلچسپی ہے ۔ بعض کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کچھی کینال کیا بلا ہے اور کن علاقوں میں یہ زمین آباد کرے گا ۔واپڈا کے چئیرمین نے بتایا کہ منگلا ڈیم کی توسیع کے بعد بلوچستان کو 12فیصد پانی ملے گا۔ کیسے ملے گا اور کب ملے گا؟ موصوف نے یہ نہیں بتایا ۔ قارئین کرام کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ بلوچستان میں دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت زمین موجود ہے اور اس زمین کو آباد کرنے کیلئے پانی کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان میں ہزاروں ندی ‘ نالے اور چھوٹے دریا بہتے ہیں جن کا کروڑوں ایکڑ فٹ پانی بحر بلوچ میں گرتا ہے ۔ اگر ان پر چھوٹے اور درمیانہ درجے کے ڈیم بنائے جائیں تو بڑے حصے کی زمین کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے اوربلوچستان خوراک کے معاملے میں نہ صرف خود کفیل ہوگا بلکہ دنیا بھر میں اس کو برآمد بھی کرے گا۔